Baam-e-Jahan

عمران خان کے خلاف زیرِ تفتیش مبینہ کرپشن کیس القادر ٹرسٹ ہے کیا؟


بام جہاں فیچر


عمران خان کے دورِ حکومت میں ‘القادر ٹرسٹ’کی بنیاد 2019 میں رکھی گئی جس کے ٹرسٹی عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کی قریبی دوست فرح گوگی ہیں۔

تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری اور عمران خان کی مختلف مقدمات میں پیروی کرنے والے وکیل بابر اعوان بھی اس ٹرسٹ کے بورڈ کا حصہ رہے ہیں۔

القادر ٹرسٹ اُس وقت قائم کیا گیا تھا جب اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ سے ایک لفافے میں بند کاغذ پر درج سمری کی تفصیلات کابینہ کو دکھائے بغیر منظوری لی تھی۔ جس کے تحت برطانیہ سے پاکستان کو موصول ہونے والے 190 ملین پونڈ یعنی ساٹھ ارب روپے کی رقم کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیا گیا تھا۔

پاکستان کو یہ رقم بحریہ ٹاؤن کے برطانیہ میں ایک تصفیے کے نتیجے میں منتقل کی گئی تھی۔

بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خلاف برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی  اے) کی تحقیقات کے نتیجے میں ملک ریاض نے مقدمہ لڑنے کے بجائے برطانوی تحقیقاتی ایجنسی سے تصفیہ کر لیا تھا جب کہ این سی  اے نے ملک ریاض سے وصول شدہ 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دی تھی۔

القادر ٹرسٹ اُس وقت قائم کیا گیا تھا جب اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ سے ایک لفافے میں بند کاغذ پر درج سمری کی تفصیلات کابینہ کو دکھائے بغیر منظوری لی تھی۔ جس کے تحت برطانیہ سے پاکستان کو موصول ہونے والے 190 ملین پونڈ یعنی ساٹھ ارب روپے کی رقم کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیا گیا تھا۔

لیکن یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے ایک تصفیے کے تحت قسطوں میں ادا کر رہے ہیں۔

اور یوں برطانیہ سے ریاست پاکستان کو منتقل ہونے والی رقم ملک ریاض کے سپریم کورٹ میں ادائیگی کے لئے دے دی گئی۔

عمران خان کی کابینہ کے رکن فیصل واوڈا پہلے ہی حلفیہ یہ کہہ چکے ہیں کہ کابینہ نے بند لفافے میں سمری کی منظوری دی تھی جو کہ برطانیہ سے موصول 190 ملین پونڈ کی ملک ریاض کی جرمانے کی ادائیگی کے لئے منتقل کی گئی تھی۔

دوسری جانب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے بھی ملک ریاض سے کئے جانے والے معاہدے کی تفصیلات رازداری میں رکھیں۔اس سارے بندوبست کے نتیجے میں ملک ریاض نے کمیشن/رشوت کے طور پر القادر ٹرسٹ کو جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں 458 کنال اراضی کی منتقلی کی جس کے ٹرسٹی عمران خان اور ان کی اہلیہ ہیں۔

موجودہ حکومت کے آنے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ‘القادر ٹرسٹ’ کو ملک ریاض کی جانب سے منتقل ہونے والی زمین کے معاملے پر غور کیا گیا اور اس کی تحقیقات کا فیصلہ کیا گیاتھا۔

عمران خان کی کابینہ کے رکن فیصل واوڈا پہلے ہی حلفیہ یہ کہہ چکے ہیں کہ کابینہ نے بند لفافے میں سمری کی منظوری دی تھی جو کہ برطانیہ سے موصول 190 ملین پونڈ کی ملک ریاض کی جرمانے کی ادائیگی کے لئے منتقل کی گئی تھی۔

نیب نے القادر ٹرسٹ کی تحقیقات کے لئے عمران خان اور اس وقت کے وفاقی کابینہ کے اراکین سمیت متعدد افراد کو نوٹس جاری کئے تھے اور گزشتہ ماہ اس کی تحقیقات کو تفتیش میں تبدیل کیا تھا۔

نیب کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ یکم مئی کو جاری کیے گئے تھے لیکن انہیں منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت سے گرفتار کیا گیا۔

نیب کے نئے قانون کے تحت عمران خان کو اس مقدمے میں 14 روز تک تحویل میں رکھا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل نیب اس قسم کے مقدمے میں کسی بھی فرد کو 90 روز تک اپنی تحویل میں رکھ سکتی تھی تاہم موجودہ حکومت نے نیب قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے ریمانڈ کی مدت کو 90 دن سے کم کرکے 14 دن کر دیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں