تحریر: بخشل تهلہو
دنیا کی دیگر ریاستوں میں کئی سارے سرکاری و نیم سرکاری اور نجی ادارے ملک کے کام کاج اور مستقبل کے لیے پالیسیاں اور تجویزیں پیش کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں یہ کام ایک دو جنرل، جج، چند سول بیروکریٹ، سیاستدان اور کوئی پیر یا پیرنی ہی کرتی ہے۔ نتیجتاً پاکستان کی حالت اس آدمی جیسی بن گئی جس نے جب ایک پیر کو اپنا ہاتھ دکھایا تو پیر نے کہا آنے والے دو سال مشکلات میں گزریں گے؟ یہ سن کر وہ بندہ خوش ہوا اور کہنے لگا کہ خیر، دو سالوں کی بعد ہی سہی چین کی سانس تو لوں گا۔ اس پر پیر نے کہا کہ نہیں! اس کے بعد تمہیں اس کی عادت بن جائے گی۔
ٹھیک دو سال قبل اپریل 2021 میں اسٹیبلشمنٹ کے اس وقت کی منظور نظر پی ٹی آئی حکومت کے دوران اسٹیبلشمنٹ کے سائے تلے پلی بڑھی تحریک لبیک پاکستان کے رہنما سعد رضوی گرفتار ہوا تھا اور ان کے کارکنان نے 12 پولیس اہلکاروں کو اغوا کرنے سمیت دو کو قتل کر کے دیگر 350 سپاھیوں کو زخمی کر دیا تھا۔ انہوں نے بھی 30 سے زائد گاڑیاں نظر آتش کر دی تھی، اور جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ کے مناظر آج کی طرح سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے تھے۔
اب دو سال کے بعد موسم کا مدار بدلا ہے، ویسے بھی اس ملک میں کرسی بدلنے (یا ٹیبل ٹرن ہونے) میں دیر نہیں لگتی، ولن ہیرو بن جاتا ہے اور تبدیلی کا "انقلاب” لانے والا ہیرو ولن بن جاتا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان گرفتار ہوئے ہیں، پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے جی ایچ کیو اور لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ کو آگ لگا دی گئی ہے، جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں توڑ پھوڑ کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ پی آٹی آئی کی تنظیم کاری اور پروپیگنڈہ کا زیادہ دارومدار سوشل میڈیا پر ہوتا ہے اس لیے انٹرنیٹ سروس بھی بند کر دی گئی ہے۔ اس کے باوجود اسلام آباد اور پشاور میں لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہو رہی ہے۔
تازہ خبر کے مطابق وزارت داخلہ نے پنجاب کو فوج کے سپرد کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب معاشی طور پر ملک منہ تلے نیچے گرا ہوا ہے، عوام مہنگائی اور سیلاب میں جبکہ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ اپنے ہی اخراج پہ پھسل رہی ہے۔ اس طرح معاشی بحران، سیاسی بحران کو اور سیاسی بحران معاشی کو دن بہ دن تیز کر رہا ہے۔ ملک کے اندر ان تمام بحرانوں کے اصل حقائق جاننے سے پہلے بین الاقوامی اور ملکی سیاسی معاشی صورت حال پر ایک طائرانہ نظر غیر ضروری نہ ہوگی۔
تمام دنیا بھی سیاسی و معاشی بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔ روس اور وایا یوکرین ناٹو کی جنگ میں بتدریج شدت آ رہی ہے نتیجتاً اگر توانائی کے ذرائع کی کمی ہوئی ہے تو مالیاتی اداروں کی عالمی جکڑ کے سبب ہر ملک کے اندر معاشی تنگی زیادہ بڑھ رہی ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان گرفتار ہوئے ہیں، پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے جی ایچ کیو اور لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ کو آگ لگا دی گئی ہے، جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں توڑ پھوڑ کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ پی آٹی آئی کی تنظیم کاری اور پروپیگنڈہ کا زیادہ دارومدار سوشل میڈیا پر ہوتا ہے اس لیے انٹرنیٹ سروس بھی بند کر دی گئی ہے۔
ہر حکومت فلاحی اخراجات میں کٹوتی کر رہی ہے، اس لیے ہر ملک میں احتجاجوں اور عوامی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں دنیا کے 145 ممالک میں گیارہ ہزار بڑے احتجاج ہوئے ہیں، جن میں تیسری دنیا کے ممالک سری لنکا، قزاقستان، کولمبیا اور ایکواڈور وغیرہ سے لے کر پہلی دنیا کے ممالک برطانیہ، فرانس اور اسرائیل وغیرہ شامل ہیں، جہاں پر دس سال کے بعد لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر ہیں۔ سرمایہ دار قوم پرست حکمرانوں کے پاس اندرونی بگڑتی صورت حال کو منہ دینے کے لیے ایک آزمایہ ہوا تاریخی نسخہ سرحدی تنازعات کو بڑھانا رہا ہے۔
ایک طرف روس یوکرین جنگ اور دوسری طرف امریکا-چین کی نئی شروع ہونے والے سرد جنگ ساری دنیا کو نئی صف بندی کے لیے مجبور کر رہی ہے۔ مختلف رپورٹس بتاتی ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ ہتھیاروں کی خرید میں اتنا اضافہ نظر آیا ہے۔ عالمی سطح پر دفاعی اور ہتھیاروں کے بڑھتے اخراجات کا 56 فیصد صرف تین ممالک یعنی امریکہ، چین اور روس کا ہے، اور جس میں سب سے زیادہ حصہ اکیلے امریکہ کا ہے. روس جس نے جنگ کی حالت میں اپنے دفاعی اخراجات 9 فیصد بڑھائے ہیں تو سعودی عرب 16 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ ای طرح مشرقی یورپ اور بھارت سے لے کہ یہ رجحان نائیجیریا اور ایتھوپیا جیسے ممالک میں بھی نظر آ رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہر ملک کے اندر آگ لگی ہوئی ہے اور ہر ملک گندھک جمع کر رہا ہے۔
وہی حالات پاکستان کے بھی ہیں جو تعلیم اور صحت پر بجٹ کا ایک یا ڈیڑھ فیصد اور کل بجٹ کے تین حصے دفاع اور قرضہ جات کی ادائیگی میں استعمال کر رہا ہے۔ ملک میں مہنگائی 40 فیصد کی ریکارڈ حد تک پہنچ چکی ہے، قرضہ جات کی ریٹنگ کرنے والے ایک ادارے موڈیز انویسٹر سروس کے مطابق حالیہ مالی سال کے جون مہینے کے اختتام تک اگر آئی ایم ایف کی قسط نہ ملی تو ملک کا ڈیفالٹ یقینی ہے۔ ملک کی تجوری میں بمشکل تین یا چار ارب ڈالرز ہوں گے، جبکہ اس سال پاکستان کو 25 ارب ڈالرز اور 2025 تک 73 ارب ڈالرز ادا کرنے ہیں۔
پاکستان پر بیرونی قرضے کا 30 فیصد چین کا ہے، اور وہ بھی اپنی دمڑی دوسرے کی چمڑی سے لینا جانتا ہے، امریکہ بھی جیسے ہی افغانستان سے نکلا ہے تو وہ منہ پھیر کر اپنے پرانے منشی کی طرف دیکھا تک بھی نہیں۔ سعودیہ والوں کی عارضی سخاوت بھی چند ارب ڈالرز تک ہوتی ہے۔ ملک کے اندرونی قرضے کی کہانی کبیر کے لاحد کو چھوتی نظر آتی ہے۔ آخرکار یہ قرضہ کون اور کیسے ادا کرے گا؟ غریب طبقے پر ٹیکس کم نہیں ہوتے اور امیروں پر ٹیکس لگتے نہیں۔
ایک طرف عوام بھوک، بدحالی، بدامنی اور بے دخلیوں کی منہ میں ہے تو دوسری طرف عسکری اداروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ملک ریاض جیسے سرمایہ داروں اور بڑے جاگیرداروں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ سماج کو دیکھیں تو محلہ محلے سے، اک برداری دوسری سے اور عام انسان دوسرے سے لڑ رہا ہے۔ مگر اس نفسا نفسی میں قوموں کے قدرتی وسائل کی بے دریغ لوٹ مار بھی جاری ہے۔
پاکستان پر بیرونی قرضے کا 30 فیصد چین کا ہے، اور وہ بھی اپنی دمڑی دوسرے کی چمڑی سے لینا جانتا ہے، امریکہ بھی جیسے ہی افغانستان سے نکلا ہے تو وہ منہ پھیر کر اپنے پرانے منشی کی طرف دیکھا تک بھی نہیں۔ سعودیہ والوں کی عارضی سخاوت بھی چند ارب ڈالرز تک ہوتی ہے۔ ملک کے اندرونی قرضے کی کہانی کبیر کے لاحد کو چھوتی نظر آتی ہے۔ آخرکار یہ قرضہ کون اور کیسے ادا کرے گا؟ غریب طبقے پر ٹیکس کم نہیں ہوتے اور امیروں پر ٹیکس لگتے نہیں۔
پڑوسی ممالک پانچ سال کے منصوبے بنا کر اپنی جڑیں مضبوط کرتے ہیں لیکن یہاں پر پانچ ہفتوں کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ جو ریاست شفاف طریقے سے شہریوں کی مردم شماری نہیں کر سکتی وہ کیسی منصوبہ بندی کرے گی؟ یہ سب کو معلوم ہے۔
یہ حکمرانوں کے طبقاتی مفادات میں ہے کہ ملکی معیشت کے بڑے حصے کو غیر رسمی طور پر چلایا جائے۔ ایران گیس پائپ لائن پر کام نہیں کریں گے، مگر جیسے حال ہی میں فنانس اور ریوینیو کی سینیٹ اسٹینڈنگ کمیٹی میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں چمن اور تافتان سرحد سے روزانہ پیٹرول اور ڈیزل کے تین کروڑ لیٹرز پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں اور ہر مہینے دس سے پندرہ ارب روپے کی ایکسچینج ہو رہی ہے۔ اس کام میں بھی ملک کے دفاعی اور حساس ادارے بلواسطہ طور پر ملوث ہیں۔ غیر قانونی طور اپنی جگہ مگر قانونی طور پر بھی ملکی معیشت کی مالک عسکری نوکر شاہی ہے۔
پنجاب حکومت کی طرف سے کارپوریٹ فارمنگ کے لیے فوج کو 45 ایکڑ زمین دینا (جس کو بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے روک دیا) اس کی ایک مثال ہے۔ پشاور پریس کلب میں دوران پریس کانفرنس ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا واقعی ملک کے عسکری ادارے نیوٹرل ہیں؟ وہاں پر بھی جواب میں کہا کہ "ملٹری انکار پوریشن” میں عائشہ صدیقہ نے جیسے ظاہر کیا ہے کہ ملک کے عسکری حکمرانوں کے جب تک بلواسطہ معاشی مفادات ہوں گے تب تک ان کا نیوٹرل رہنے کی بات صرف اک بات ہی ہوگی۔ اسی طرح معاملہ عدلیہ اور پارلیمان کے تضاد کا نہیں اور نہ ہی عمران خان نواز شریف کی ضد کا ہے۔
. ”قصور کلہاڑی کا نہیں، کلہاڑی میں پڑے ہاتھہ کا ہے“ کے مصداق معاملہ ہے ملک کی اہم ذمہ دار ادارے (اسٹیبلشمنٹ) کی داخلی چپقلش کا ہے، جو اپنا اظہار دیگر ریاستی دائروں میں کرتا ہے
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
ناحق ہم مجبوروں پہ تہمت ہی مختاری کے
چاہتی ہوں سو آپ کریں ہم کو عبث بدنام کیا۔
میر
غور سے دیکھیں تو بات یہاں پر بھی رکتی نہیں۔ ریاست کے تضاد کی بنیادیں سماج میں پیوست ہیں۔ عام سیاسی شعور صرف ابلتا ہوا پانی دیکھتا ہے، جبکہ حقیقی تنقیدی نظر پانی اور برتن کے گرم تلوے کو بھی فرض کر لیتی ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھیں تو اصل تضاد نیچے محنت اور سرمایہ کا, مفلوک الحال عوام اور امیر کبیر پرت کا ہے۔ لیکن چونکہ ملک کا واحد مضبوط اور قابض ادارہ (اسٹیبلشمنٹ) آکٹوپس کی طرح سارے سماج کو جکڑ کر رکھے ہے، اس لیے وہ بھی اس تضاد کو اپنانے پہ مجبور ہے جس نے سارے سماج کو تقسیم کر رکھا ہے۔ ایسے ہی تضاد اور تفریق سماج سے ہو کر اسٹیبلشمنٹ تک اور اسٹیبلشمنٹ سے لے کے ریاست کی مختلف اشکال تک میں اپنا اظہار کر رہی ہے۔
. ”قصور کلہاڑی کا نہیں، کلہاڑی میں پڑے ہاتھہ کا ہے“ کے مصداق معاملہ ہے ملک کی اہم ذمہ دار ادارے (اسٹیبلشمنٹ) کی داخلی چپقلش کا ہے، جو اپنا اظہار دیگر ریاستی دائروں میں کرتا ہے
کہتے ہیں کہ وتایو فقیر ایک دن سر پر ہاتھ رکھ کر گلی میں بیٹھا تھا تو کسی نے پوچھا فقیر خیر تو ہے؟ وتایو نے کہا، بھائی خیر کیسی؟ خدا اور شیطان آپس میں لڑ پڑے ہیں۔ سامنے والے نے پوچھا کہ فقیر، لڑیں وہ ہیں لیکن تمہارے سر پر ہاتھ کیوں ہیں؟ فقیر نے کہا کہ بھائی، لڑیں تو میری ہی گھر میں ہیں نا….!
اسی طرح روس اور نیٹو میں سے، امریکہ اور چین میں سے، اور اگر ملک کے اندر دیکھیں تو پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی میں سے، اسٹیبلشمنٹ کے مختلف دھڑوں میں سے، کون خدا ہے اور کون شیطان ؟ یہ فیصلہ محفوظ رکھتے ہیں لیکن دنیا اور عوام کے سر ہاتھ ضرور ہیں۔ اچھی خبر کے امکانات صرف تب ہی روشن ہوں گے جب عوام منظم ہو کر اپنے سر سے ہاتھ ہٹا کر حکمرانوں کے گلے میں بنا کسی فرق کے ڈالیں گیں۔