Baam-e-Jahan

پھر بازی پلٹ گئی۔

فرنود عالم

خان صاحب چکوال کے ایک ریوڑی فروش کے ساتھ مل کر بیس سال کے منصوبے بنا رہے تھے۔ اٹھارہویں ترمیم کے خلاف مہم جوئی کر رہے تھے اور صدارتی نظام کے لیے لنگڑ ڈال رہے تھے۔ سیاست دانوں کے لیے سزاوں اور نا اہلیوں کے طویل دورانیے طے کر رہے تھے۔ یہ سب کرتے ہوئے توقع یہ کر رہے تھے کہ سیاست دان آرام سے بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہیں گے۔

تحریر: فرنود عالم


پی ٹی آئی نے سیاست کو حق اور باطل کا معرکہ بنا لیا تھا۔ ہم درست ہیں، باقی کوئی سلام کے قابل ہے اور نہ وعلیکم سلام کے۔

اپنے برتن اس حد تک الگ کر لیے کہ غمی خوشی سے بھی گئے۔ کہیں آپ نے دیکھا ہو کسی سیاست دان کے والدین، بچوں یا کسی عزیز کا انتقال ہوا ہو اور خان صاحب نے تعزیت گوارا کی ہو۔

ملک کے اندر ہو یا ملک سے باہر ہو، ان کا ایک بھی ایسا بیان نہیں ملتا جس میں شمولیت اور شراکت کا کوئی اشارہ ملتا ہو۔ بلکہ شراکت داری جیسے بنیادی سیاسی عمل کو ‘مُک مکا’ کہہ کر غیر سیاسی ذہن کو انہوں نے راغب کیا۔

کرپشن اور احتساب کے جو نعرے ریاستی اشرافیہ نے تخٖلیق کیے تھے، انہی پر زیتون پیلا اور نکل پڑے۔ حریفوں کے لیے چور ڈاکو جیسے الفاظ کو روا رکھا اور پکڑو ماردو لٹکادو پر سارا بیانیہ استوار کیا۔۔

کبھی کسی منصوبے کا سوال آیا تو جناب نے الفاظ چبا چبا کر بات کی۔ اٹک اٹک کر بولے اور غلط ادائیگی کے ساتھ غلط اعداد و شمار بیان کیے۔ جیسے ہی سیاست دان کا ذکر آیا پرچی اور چشمہ ایک طرف رکھ کر ایک دم  سے رواں ہوگئے۔

اقتدار میں بھی آئے تو وزیر اعظم بننے کی بجائے جیلوں میں اے سی بند کرنے والا کام پکڑ لیا۔ جو وقت بچا اس میں سٹینڈ اپ کامیڈی کا مشغلہ اختیار کر لیا جس میں وہ بلاول بھٹو کی نقل اتارتے تھے۔ بگاڑ بگاڑ کے سیاست دانوں کے نام لینا اس کامیڈی کا اہم حصہ ہوتا تھا۔ آخر میں ملا فضل اللہ کی طرح کسی پولیس افسر یا سیشن جج کو مخاطب کر کے کہہ دیتے، بیٹا آخری نوالہ کھالو میں آرہا ہوں اقتدار میں۔

یہ چیز نیچے کارکنوں میں اس حد تک سرایت کر گئی کہ آنکھ کا پانی ہی خشک ہوگیا۔ ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی ان کا شعار بن گیا۔ وضع داری کو انہوں نے چاپلوسی سمجھ لیا۔

کسی نے ہنس کر ان سے حال بھی پوچھا تو انہیں لگا کہ یہ ہم سے کردار کی سند مانگ رہا ہے، جو ہم نہیں دیں گے۔ یہ برتری کے ایک ایسے احساس میں مبتلا ہوگئے جو جماعت اسلامی تک کے لیے بھی اجنبی تھا۔

ہر آتے جاتے پر یہ آوازیں کسنے لگ گئے۔ اس بازاری پن کو حق پر ہونے کی دلیل سمجھ لیا۔ یہ سمجھ لیا کہ اگر مخالف سچے ہوتے تو وہ بھی یہی چچھور پن کرتے۔ یہ حق پر نہیں ہیں تبھی تو راہ چلتے ہماری گُدی پہ چپت نہیں لگاتے۔

بچوں تک کو میدان میں اتار کر خان صاحب نے بتایا کہ تم  نے مخالفین کے بچوں کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ نتیجے میں پولرائزیشن نے سکولوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔  پیدا ہونے والی اس آلودگی کو بہت اطمینان سے انقلاب کی آخری دستک کہا گیا۔

اقتدار میں بھی آئے تو وزیر اعظم بننے کی بجائے جیلوں میں اے سی بند کرنے والا کام پکڑ لیا۔ جو وقت بچا اس میں سٹینڈ اپ کامیڈی کا مشغلہ اختیار کر لیا جس میں وہ بلاول بھٹو کی نقل اتارتے تھے۔ بگاڑ بگاڑ کے سیاست دانوں کے نام لینا اس کامیڈی کا اہم حصہ ہوتا تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ بد لحاظی پی ٹی آئی میں کوالفیکیشن بن گئی تھی۔ جو زبان دراز دربار میں آتا خان صاحب  دور سے کہتے، یہ ہے میرا اصل ٹائیگر۔ پھر خان صاحب کے دل میں اترنے کے لیے  جوانوں  نے بد تمیزی کا راستہ اختیار کیا۔

خیر، آگے چلتے ہیں!

عوامی حلقہ اور تائید رکھنے والے سیاست دان اداروں سے کام نکلواتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ خان صاحب  نے باقاعدہ ترجمانی شروع کردی۔

باجوہ کی ایک ہنستی ہوئی تصویر آپ نے دیکھی ہوگی جس میں انہوں نے چھڑی آٹھویں انچ سے پکڑی ہوئی ہے۔ یہ تصویر پی ٹی آئی کے ہر کارکن  نے بٹوے میں لگائی ہوئی تھی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر، شبر زیدی اور شہزاد اکبر جیسے کرائے دار تک ان کی ڈی پیوں کے چوکٹے میں آگئے تھے۔ ایسے تو وہ ویٹر ٹائپ سیالوی لڑکا بھی نہیں کرتا۔

خان صاحب چکوال کے ایک ریوڑی فروش کے ساتھ مل کر بیس سال کے منصوبے بنا رہے تھے۔ اٹھارہویں ترمیم کے خلاف مہم جوئی کر رہے تھے اور صدارتی نظام کے لیے لنگڑ ڈال رہے تھے۔ سیاست دانوں کے لیے سزاوں اور نا اہلیوں کے طویل دورانیے طے کر رہے تھے۔ یہ سب کرتے ہوئے توقع یہ کر رہے تھے کہ سیاست دان آرام سے بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہیں گے۔

زرداری جیسے حوصلہ مند سیاست دانوں نے فلور پہ کھڑے ہوکر انہیں بہت دھیمے لہجے میں سمجھایا کہ دیکھو بیٹا ایسے نہیں کرتے۔ اب بھی موقع ہے،  بریک لگاو اور ذرا ٹھنڈا کر کے کھاو۔ اس تجویز کو بھی این آر او کا نام دے کر ہوا میں اڑا دیا گیا۔

پھر بازی پلٹ گئی۔

خان نے اب تک جو دوسرے وزرائے اعظم کے متعلق سنا تھا، خود اپنے ساتھ ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔ مگر فائدہ؟ ڈھاک کے تین پات تھے، وہی تین رہے۔

سیاست دانوں نے بیٹھنے کو کہا، نہیں مانے۔ سیاست دانوں نے جولائی میں حکومت ختم کرنے کی آفر دی، نہیں مانے۔ لیکن عطار کے جس لونڈے نے دکھ دیا تھا اسی کے ساتھ ایوانِ صدر میں بیٹھ گئے۔ اس نے کہا اسمبلیاں توڑ دو، جواب میں زور کی چھینک ماری اور اسمبلیاں دھڑام ہوگئیں۔

اب بجائے اس کے کہ ملبے پہ چڑھ کے اپنی ذہانت کا ماتم کرتے، الٹا الیکشن مانگنے لگ گئے۔ اب یہ آئینی مسئلہ نہیں تھا بلکہ  سیاسی بحران تھا۔ بحران سے نکلنے کے لیے جناب کو پھر بیٹھنے کو کہا گیا، مگر وہی آموختہ

سچ تو یہ ہے کہ بد لحاظی پی ٹی آئی میں کوالفیکیشن بن گئی تھی۔ جو زبان دراز دربار میں آتا خان صاحب  دور سے کہتے، یہ ہے میرا اصل ٹائیگر۔ پھر خان صاحب کے دل میں اترنے کے لیے  جوانوں  نے بد تمیزی کا راستہ اختیار کیا۔

‘میں چوروں کے علاوہ ہر کسی سے بات کرنے کو تیار ہوں’

اس سے کہیں بڑھ کر مذاق اب یہ ہے  کہ نیب قوانین میں موجودہ پارلیمنٹ کی کی گئی ترمیم سے فائدہ بھی لینا چاہتے ہیں اور دوبارہ حکومت میں آکر نیب قوانین کو مزید سخت بھی کرنا چاہتے ہیں۔

ایسے میں تحریک انصاف کے ساتھ دھونس دھمکی والا جو سلسلہ چل رہا ہے، اس پر دل میں ریاستی اشرافیہ کے لیے برابر غم و غصہ محسوس ہو رہا ہے، مگر خان صاحب کے لیے ہمدردی پیدا نہیں ہو پارہی۔ اتنی ہمدردی بھی نہیں، جتنی کل شیریں مزاری کے لیے  پیدا ہوئی اور آج اسد عمر کے لیے پیدا ہوگی۔ 

اب بس وقت ہے اور ہم ہیں۔ دونوں مل کے انتظار کر رہے ہیں کہ خان نیچے اتریں گے یا دُھونی رما کے کوہ طور پہ ہی بیٹھے رہیں گے۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ کل پیشی کے موقع پر بدلاو کے کچھ اشارے ملے ہیں۔ خان نے کہا،

‘سیاست دان تو مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرتے ہیں’

مزید کہا

‘میں آرمی چیف سمیت ہر کسی سے بات کرنے کو تیار ہوں’

یہ اب ایک سیاسی لب و لہجہ ہے، مگر اس خبر کے غلط ہونے کا دھڑکا لگا ہوا ہے۔ خان صاحب کے منہ سے سیاست دان، مذاکرات اور حل جیسے الفاظ بہت عجیب سے لگ رہے ہیں۔ پھر آرمی چیف کے علاوہ کو پہلی بار چور کہنے کی بجائے انہوں نے ‘ہر کسی’ کہا ہے۔ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا؟

فرنود عالم

فرنود عالم کا وطن پختونخوا ہے اور مسکن اسلام آباد ہے۔ خود کو ہمیشہ سیاسیات و سماجیات کا طالب علم کہتے ہیں۔ ایک عالمی ادارے کے شعبہ ابلاغیات سے وابستہ ہیں۔ لکھے کو پڑھتے ہیں اور پڑھے کو لکھتے ہیں۔ سیاحت کا شوق رکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں