Baam-e-Jahan

کلام الدین ایک نڈر سیاسی کارکن


کلام الدین گزشتہ کئی سالوں سے وہ ریاستی جبر کے شکار ہوئے ہیں اور اپنی سرزمین اور یہاں کے باسیوں کے بنیادی انسانی حقوق، جمہوری و آئینی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے پر گرفتار ہوئے ہیں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ہے۔

تحریر: شبیر معیار


خوف کے دو معنی ہیں!

"ہر چیز کو بھول جاؤ اور بھاگو”

یا

"ہر چیز کا سامنا کرو اور ڈٹ جاؤ” انتخاب آپ کا ہے.

ڈٹ جاؤ کلام الدین کی طرح

اور خوف کو توڑ دو

کلام الدین جنہیں گزشتہ دنوں اپنے بنیادی حق یعنی اپنے  آبا و اجداد کی زمین پر قبضہ مافیا اور ریاستی اداروں کے قبضہ گیری کے خلاف پرامن مذاحمت کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا، جیل میں غیر انسانی سلوک کی وجہ سے طبیعت خراب ہوئی اور انہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

یہ کلام الدین اور ان جیسے بہادر سپوتوں کے لئے کوئی نئی چیز نہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے وہ ریاستی جبر کے شکار ہوئے ہیں اور اپنی سرزمین اور یہاں کے باسیوں کے بنیادی انسانی حقوق، جمہوری و آئینی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے پر گرفتار ہوئے ہیں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ہے۔

کلام الدین صاحب  پہلی بار 20 سال کی عمر 1986  میں ایم ایل آر کی تحریک کے دوران گرفتار ہوئے۔

پھر گرفتاری کا سلسلہ چلتا رہا 1992 میں بینر لکھنے پر دوسری دفعہ گرفتار ہوئے۔  تیسری دفعہ جنوری 1996 میں قومی ترانوں کی آڈیو کیسٹ ریلیز کرنے پر گرفتار ہوئے۔ چوتھی دفعہ 22 جون 1996 کو گرفتار ہوئے۔ پانچویں دفعہ 14 اگست 1997 کو بلیک جوبلی منانے پر تمام قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ گرفتار ہوئے۔

 2002 میں ایف آئی آر درج ہوا تو ساتھیوں کے مشاورت پر رپوش ہوئے اور ضمانت منظور ہونے پر دوبارہ منظر عام پر آئے۔

چھٹی دفعہ اپنے آبا و اجداد کی زمینوں پر نوآباد کاروں کو قبضہ کرنے کے خلاف مذاحمت کرنے پر گرفتار ہوئے اور پھر طبیعت ناساز ہونے پر جیل سے ہسپتال منتقل کئے جانے کی خبر  ہمیں ساتھیوں سے ملی۔

 دوستوں نے بتایا وہ آج   59 سال کی عمر میں بھی نوجوانوں کی طرح پرعزم ہے اور اپنے وطن اور اپنے محکوم عوام کے لئے جدوجہد کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔

وہ اپنے 39 سالہ جدوجہد  سے مطمئن ہیں کہ انھوں نے کھبی بھی کسی ظالم کی حمایت نہیں کیا بلکہ ہمیشہ مظلوم و محکوم عوام کے حقوق کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھا اور آئیندہ بھی جدوجہد کے راستہ پر چلنے کا عزم رکھتے ہیں۔

 ہسپتال سے کلام الدین صاحب نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جیل، ریاستی جبر، تشدد ہمارا راستہ نہیں روک سکتا ہے ہمیں اس قومی جدوجہد کو آنے والی نسلوں میں منتقل کرنا ہوگا۔

انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے وطن کی پہاڑوں اور اس میں محفوظ معدنی ذخائر، دریاؤں، زمینوں، چراگاہوں، اورمحکوم عوام کے جمہوری، قومی اور معاشی  حقوق کے لئے کھڑے ہوجائیں ورنہ عالمی سامراج کے یہ گماشتے  ہمیں اپنے ہی وطن سے بے دخل کرکے سرزمین اور شناخت سے محروم کریں گے۔

اس سے پہلے اپنے حق کے لیے ڈٹ جانے میں آپ اور آپ کے آنے والی نسلوں کی خوشحالی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے