Baam-e-Jahan

پاکستانی خارجہ پالیسی میں انقلابی تبدیلی


روس سے تیل کی خریداری بجائے خود ہی پاکستان کے لئے ایک بڑی خبر تھی کیونکہ پاکستان اپنے قیام سے لے کر آج تک تیل کی خریداری خلیجی ممالک سے کرتا آیا ہے اور خلیجی ممالک میں کس کا اثر رسوخ ہے وہ سب جانتے ہیں۔

تحریر: ناصر بٹ


گزشتہ ایک ماہ کے دوران دو ایسی بڑی خبریں آئیں جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لحاظ سے بہت دور رس نتائج کی حامل تھیں۔ مگر اکثر لوگوں نے انہیں نارمل خبروں کی طرح ہی لے  لیا۔

پہلی خبر ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ والی تھی جو اس لحاظ سے بہت اہم تھی کہ امریکہ کے ساتھ ایران کے تعلقات نارمل سطح پر نہیں اور انہوں نے ایران پر کئی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں صاحب بہادر کی منشا کے خلاف کسی پالیسی کا بننا ایک بڑی تبدیلی ہے۔

دوسری خبر تو بہت زیادہ دہماکے دار رہی۔

روس سے تیل کی خریداری بجائے خود ہی پاکستان کے لئے ایک بڑی خبر تھی کیونکہ پاکستان اپنے قیام سے لے کر آج تک تیل کی خریداری خلیجی ممالک سے کرتا آیا ہے اور خلیجی ممالک میں کس کا اثر رسوخ ہے وہ سب جانتے ہیں۔

مگر اس کے ساتھ یہ خبر تو انتہائی دہماکہ خیز تھی کہ پاکستان نے اس روسی تیل کی خریداری چائینیز یوآن میں کی ہے۔

ڈالر کو لے کر امریکہ کس قدر حساس ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ ماضی میں ایسا سوچنے پر بھی وہ کئی ممالک میں حکومتیں گرا چکا ہے آج مگر پاکستان نے یہ کیا ہے اور وزیر مملکت برائے تیل و گیس مصدق ملک نے اس کا اعلان بھی خود ہی کیا ہے۔

یہ ہر گز ممکن نہ ہوتا اگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ جو ہمیشہ سے پرو امریکہ رہی ہے خارجہ پالیسی کے اس پیراڈائم شفٹ میں ان بورڈ نہ ہوتی۔

خطے میں بننے والے نئے بلاکس میں پاکستان نے اپنی ترجیحات واضح کر دی ہیں اور یہ آزاد خارجہ پالیسی کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔

پاکستان کی کوئی حکومت اتنے بڑے فیصلے خود سے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی جب تک اسے یقین نہ ہو کہ ایسے فیصلوں کے بعد اس کی گردن نہیں اڑائی جائے گی۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونا یا نہ ہونا ایک چھوٹی خبر بن کے رہ گئی ہے جن طاقتوں کے ساتھ مل کے پاکستان نے یہ فیصلے کئے ہیں وہ پاکستان کو ریسکیو کرنا بھی جانتے ہیں اور اسے ڈیفالٹ نہیں ہونے دیں گے ایسا میرا ماننا ہے۔۔

ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان نے ایسا کرتے ہوئے بہت لو پروفائل اختیار کیا ہے اور اپنی خارجہ پالیسی کو یک رخا کرنے یا بتانے سے انتہائی حد تک گریز کیا ہے۔

مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ ایک نئے سفر کا آغاز ہے ایک ایسا سفر جس سے ملکی ترقی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں