Baam-e-Jahan

تاشقرغن اور ہنزہ کوجڑواں شہر قرار دینے کی تجویز

Tashqurgan Twon

امکانات، تجارتی فوائد اور ماحولیات کے حوالے سے ہنزہ کے لوگوں کے خدشات


صفی اللہ بیگ


گزشتہ دنوں سوشل میڈیا  کے ذریعے معلوم ہوا کہ چین کا سرحدی  شہرتاشقرغن اور ہنزہ کو جڑواں شہر بناینے کی تجویز ہے۔ اس سلسلے میں ضلع ہنزہ اور تاشقر غن کے حکام کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت پردستخط بھی کئے گئے ہیں۔ تاہم اس یادداشت کی تفصیلات ابھی تک منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے اور اس  میں منتخب نمائندوں اور سیاسی رہنماوں کی رائے شامل نہیں۔ کچھ حلقے اس کی افادیت اور  خظے کی ترقی میں اسے ایک اہم پیشرفت سمجھتے ہیں۔ جب کہ کچھ سیاسی اور سماجی حلقوں میں اس حوالے سے ابہام اور تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

اس ضمن میں ایک  سیمنار   ایوان تجارت  ہنزہ کے زیراہتمام ۱۴ /اگست کو  قراقرم ایریا ڈویلپمینٹ  آرگنائزیشن کے دفتر کریم آباد میں منعقد کیا گیا جس میں کاروباری  اور سیاسی شخصیات  نے شرکت کیں۔

 اس سیمینار میں سابق گورنر گلگت  بلتستان میر غضنفر علی خان، سابق اسپیکر گلگت بلتستان اسمبلی وزیر بیگ، سابق نگران وزیر صحت ڈاکٹر امام یاربیگ، ڈپٹی کمشنر ہنزہ کے علاوہ چمبر آف کامرس کے عہدےداران، سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بھی  شرکت کیں ۔ سیمنار میں شریک مقررین اور حاضرین کو دیکھ کر یوں لگا کہ اس کے انعقاد میں ہنزہ کے مختلف طبقات، زندگی کے مختلف شعبوں کے نمایاں شخصیات اور اس تجویز سے متاثر ہونے والے افراد اور گروہوں کی نمائیندگی نہیں تھی۔ بلکہ اس سیمنار کو صرف مخصوص کاروباری افراد اور سابق عہدیداران تک محدود رکھا گیا تھا۔

میں نے  سیمنار میں کی گئی  چند تقریروں  کوسن  کر یہ نتیجہ اخذ  کیا کہ اس  تجویز کے ذریعے دونوں شہروں یا پڑوسی تاریخی علاقوں کے درمیان کاروبار کے ممکنہ مواقعوں سے کیسے فائیدہ حاصل کیا جائے۔   مجھے حیرت اور افسوس بھی ہوا۔ کیونکہ کسی بھی مقرر نے دنیا میں جڑواں شہر بنانے کے اصولوں، لوازمات، حکمت عملی اور ممکنہ نتایج پر نہ اظہار خیال کیا اور نہ ہی ان کی تیاری نظر آئی ۔ یہاں تک کہ ہنزہ اور تاشقرغان کی  جغرافیائی  اہمیت، ما حولیات،  تاریخی روابط اور جڑواں شہر بنانے کے اہم مقاصد کا ا حاطہ بھی کسی نے نہیں کیا۔

ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سیمنار اور اس میں پیش کیا گئےتجاویز کو ایک مخصوص طبقہ اپنے فوری مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہتاہے۔ حالانکہ ڈُپٹی کمشنر نے اپنی مختصر تقریر میں اس تجویز کا پش منظربہترطریقے سے پیش کیا تھا۔ تاہم انہوں نے اپنی تقریر کے اختتام انہوں نے اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چمبر اف کامرس کے عہدے داروں سے  تحریری  تجاویز  مانگی۔ یعنی ڈی سی صاحب بھی اس تجویز کوعوامی سطح پر لے جانے کے بجاے افسرشاہی کی عمومی رویہ کو برقرار رکھتے ہوے مقامی اشرافیہ اور معاشی اعتبار سے قدرے توانا حلقوں تک محدود رکھنا چاہتے  ہیں  جو کہ ایک تشویش ناک بات  ہے۔   

دوسری طرف مقررین نے اپنے خاندانی تاریخ کے مثبت پہلوں اور اپنی کارکردگی کو مستند حقایق اور شواہد کے  ساتھ پیش کرنے کی   بجائے مبالغہ آمیز قصے کہانیاں   پیش کیں۔ مثلا غضنفرعلی خان نے یہ دعوی کیا کہ فوجی آمر ایوب خان نے  ان کے والد اور ہنزہ کے آخری حکمران میر محمد جمال خان پر دباو ڈال   کرسابق ریاست ہنزہ کے سب سے بڑے  وادی شمشال کے  ۴۰کلومیٹر کا رقبہ  چین کو دیا۔ اس   کے بدلے میں  ریاست   پاکستان نے  گلگت اور اس کے مضافات میں  میر اف ہنزہ کے خاندان کو بے شمار  زمینوں اور مراعات سے نوازا تھا۔ اس پر کسی اور موقع پر بات کرینگے۔

چنانچہ سابق گورنر نے دبے لفظوں میں یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی کہ دراصل چین کو ۱۹۶۳ کے پاکستان چین سرحدی معاہدے میں دیا ہوا علاقہ ہنزہ کے میر کا چراہ گاہ تھا اور حسب دستور میر غضنفرعلی خان نے ڈی سی اور شرکا کو تجویز دیا کہ مستقبل  قریب میں  چین سے ہنزی آنے والے  وفد کو ان کے محل لایا جا ئےتاکہ چاے کے پیالی پہ ان کو وہ قائل کرسکیں۔

حیرت اس بات  پربھی  ہوئی کہ سابق اسپیکر گلگت بلتستان اسمبلی اورہنزہ کے سابق منتخب نمایندے  نے  سیاسی اور منتخب نمائندوں کو  اس عمل  میں شامل کرنے کی بجائے  ہنزہ میں اکثریتی ایک غیر سرکاری ادارہ   ایکسیلییٹر پروسپیرٹی کو شامل کرنے پر زور دیا۔ اور تاکید کی کہ اس سلسلے میں آیندہ چین جانے والے وفود میں ہنزہ سے چمبر اف کامرس کے نماییندوں کوموثر نمایندگی دی جاے۔ ساتھ ہی انہوں نے  غیرقانونی تجارت  کی حوصلہ شکنی پر بھی زور دیا۔

  سیمنار میں سول سوسایٹی کے جانب سے ایک پریزن ٹیشن بھی پیش کیا گیا۔ جس میں ہنزہ کی تاریخ بیان کرنے کی کوشش کی گئی۔ جس میں تاریخی حوالے سے اب تک کے مستند معلومات کے بجاے ہنزہ میں بسنے والے مختلف نسلوں اور قبیلوں  کے لوگوں کو "ہن” ہونے کا دعوی کیا گیا۔ اور  چین کے مغربی صوبہ  سنکیانگ کے ساتھ سابق ریاست ہنزہ کے تعلقات پرحقایق  کی  بجاے عمومی معلومات  کو پیش کیا گیا۔

 تاہم اس میں اس بات کا بھی دعوی کیا گیا کہ ہنزہ بحثیت ریاست عالمی شہرت کے حامل رہا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ انیسویں، بیسویں صدی اور موجودہ حالات میں ہنزہ کی اہمیت کیا ہیں اور کیوں ہیں؟۔ سب سے حیران کن بات یہ کہی گیی کہ ہنزہ، تاشغورغان اور سنکیا نگ کی ثقافتیں ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ حالانکہ حقایق اس سے بلکل مختلف ہیں۔ سوائےچند ہزار وخی زبان بولنے والوں کے سینکیانگ کی اکثریت ابادی ترکی، کرغز، سریقولی اور دیگر زبانیں بولتی ہیں۔

 اس  رپورٹ میں سب سے زیادہ زور اس بات پر  دی  گئی کہ ہنزہ اور تاشقرغان کو جڑواں شہر کا درجہ دینے میں تجارت اور کاروبار کے کیا مواقع مل سکتے ہیں۔ اور بغیر تحقیق کے یہ باور کرانے کی کوشش کی گیی کہ ہمیں اس باہمی تعاون کے نتیجے میں سیاحت، زراعت، معدنیات اور دیگر شعبوں میں تجارتی مواقعے تلاش کرنے ہونگے جس کو سول سوسایٹی کے زیر نگرانی آگے بڑھانے پر زور دیا گیا۔

سیاحت میں تجارت اور کاروبار کے واضع مواقعوں پرزور دیتے ہوے ایک عالمی اور نجی ہوٹل کی اشرافیہ اور دولتمندوں کی سیاحت کی مثال دی گئی، اور دعوی کیا  گیا کہ مستقبل میں چین اور پاکستان کے درمیان ریلوے لائن کی تعمیر کے بعد سیاحت میں بے پناہ ترقی ہوگی۔ تاہم شرکا ءکو خبردار بھی کیا گیا کہ” ہمیں ہنزہ کے اقدار اور روایات کوبچانا ہوگا جو اس وقت سیاحت کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہیں”۔ شائید وہ یہ کہنا چاہتے ہوں کہ سرمایہ اور سرمایہ داروں کے کاروبار کو ہمیں ہر حال میں قبول کرنا چاہیےمگر ان کے ہنزہ کے سماجی، ثقافتی، معاشی اور ماحولیاتی اثرات کی ذمہ داری ہنزہ کے عوام کو لینا ہوگا۔    

اس سیمنار سے دلچسپ بات یہ نکلتی ہے کہ  کیا ہنزہ  کے عوام کی اکثریت کاروبار، تجارت اور سیاحت سے وابستہ ہیں ۔۔ اہم سوال یہ بھی ہے کہ اس سیمنار میں تجویز کی گیی تجارتی سرگرمیوں، سیاحت اور ثقافتی روابط بڑھانے سے عوام کی اکثریت کو فایدہ ہوگا یا ایک مخصوص طبقہ اس سے مستفید ہوگا۔

مگر یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ان مقامی کاروباریوں اورسول سوسایٹی کے نمایندوں نے اس بات پرغور کیوں نہین کیا کہ محض نو ہزار  نفوس ور ۴ مربع کلومیٹر کا قصبہ تاشغورغان ہنزہ کے مد مقابل آج کیوں اور کن وجوہات کی بنا پر  نسبتا ترقی یافتہ ہے؟۔ تاشغورغان کی ترقی کےرازکے پیچھے کیا أسباب اور وجوہات ہیں؟  اور چین نے حکومت گلگت بلتستان کے ساتھ کیا ہوا عمومی معاہدے میں مشترکہ ترقی اور خوشحالی کا ذکرکس تناظرمیں کیا ہے اور اس کو ہنزہ کے موجودہ حالات میں کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟

اس طرح کے بنیادی سوالات پر غور کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہنزہ اور تاشقرغان کے سیاسی، معاشی، سماجی، نظام حکمرانی، قانون، ریاستی ادارے، ماحولیات اور عوام بشمول خواتین ان میں شمولیت اورمستقبل کی دیرپا ترقی کے لیے عوام کی صلاحیت اور ان کو میسر بنیادی حقوق اور سہولیات کی فراہم کا تفصیلی جایئزہ لیا جائے۔

بدقسمتی سےپچھلے کئی دہاییوں سے ہنزہ اور پورے گلگت بلتستان میں عوام کو سیاسی عمل اور سیاسی فیصلوں سے باہر رکھا گیا ہے۔ اس کی مثال ۱۷ سالوں سے مقامی حکومتوں کا  انتخاب نہ ہونا ہے۔ جس کے نتیجے میں عوام کو وہ پلیٹ فارمز میسر نہیں ہیں جہاں وہ خطے کے مسائل پر ہمہ گیر بحث و مباحثہ اور تفصیلی جایزہ لے سکیں۔ اس کے بجاے مسائل کو سرسری انداز میں دیکھنے اور قلیل المدت پروجیکٹس کرنے کا این جی اوز کا طریقہ کار سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر روشناس کرایا گیا۔ جس کو عرف عام میں سووٹ انالسسز کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ کسی بھی علاقے کا یا انسانی گروہ کے مسائل کا جامع تاریخی، مادی اورمعروضی تجزیہ کرنے کے بجائے ان کے مختصرطاقت، کمزوریاں، مواقعے اور خطرات کا جایزہ لیا جائےاور پھر  آسان ، دیرپا حل تلاش کیا جائے۔ چنانجہ آپ کسی بھی مسئلہ پر ہنزہ کے لوگوں سے گفتگو کریں تو سامنے سے لوگ فورا سوال کرتے ہیں کہ آپ اس کا حل بتادیں۔ مگر یہ نہیں سوچتے ہیں کہ اس حل تک پہنچنے کے لیے ضروری مراحل اور اقدامات کو  نظر انداز کرنے کے کیا نقصانات ہوتے ہیں؟ اور ایسا کرنے سے کن کو فائیدہ اور کن کو نقصان ہوسکتا ہے ؟

تاشقر غن کی تاریخ

تاشقورغن چین کے صوبہ سنکیانگ کے تاشقورغان تاجک خودمختار کاونٹی کا صدر مقام ہے۔ اس قصبے کا رقبہ ۴ مربع کلومیٹر ہے اور یہ سطع سمندر سے ۳۰۹۴ میٹر یعنی ۱۰ ہزار ۱۵۱ فٹ اونچاہے۔ آبادی ۸ ہزار۹۱۹ افراد پر مشتمل ہے۔ تاشغورغان سلک روٹ کا ایک اہم قیام گاہ تھا۔ اور تاریخی اعتبار سے اسے سریقول بھی کہا جاتا تھا۔  کہا جاتا ہے کہ تاشقرغان کے تاریخی قلعہ  کی تعمیر ۱۲۷۹ ءتا ۱۳۶۸ ء میں کیا گیا تھا۔  

چین میں انقلاب کے بعد ۱۹۵۹  ءمیں تاشقرغان کمیون کا قیام عمل میں لایا گیا اور   ۱۹۸۴ ء  میں تاشقرغان  کو ٹاون کا درجہ دیا گیا۔ آج یہاں ایک میوزیم بھی موجود ہے تاشقرغان کاونٹی کی اکثریتی آبادی سریقولی زبان بولتے ہیں جبکہ یہاں وخی، ای غور، مانڈارین زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ دریاے تاشقرغان خنجراب کے شمال سے نکلتا ہے اور تاشقرغان سے ہوتا ہوا تارم بیسن میں دریاے یارقند میں شامل ہوتا ہے۔

 انتظامی اعتبار سے تاشغقرغان ۶ کمیونٹیز پر مشتمل ہے تاشغورغان کو چین اور دنیا کے ساتھ تاشقرغان خنجراب آئیرپورٹ کے ذریعے جوٖڑا گیا ہے۔ اور کاشغر شہر سے ۲۳۰ کلومیٹر اور خنجراب پاس  ۱۲۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

 تاشقرغان کو 1959 ءمیں کمیون کا درجہ دینے  1984 میں ٹاون قرار دینے اور تقریبا 9 ہزار آبادی والا اس قدیم اور 10 ہزار فٹ یعنی چپورسن کے برابر اونچائ  اور خنجر اب  بار ڈر سے  ۱۲۰کلومیٹر کے فاصلے پر واقع قصبے میں انٹرنیشنل ائرپورٹ بنانے کے پیچھے کار فرما طرز حکمرانی اور انتظامی ڈھانچے کو  تاشقرغن   چین کا  ایک شہر ہے جس  کا رقبہ  ۴مربع کلومیٹر اور آبادی ۶ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ جب کی   ہنزہ جو رقبہ کے لحاظ سے گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ضلع ہے۔

تاشقرغن کے ترقی اور ہنزہ کی 1959ءکی میری نظام 1984ء میں ریاست پاکستان کی مدد سے این جی اوز کی آمد اوران کے ذریعے غیرسرکاری ترقی، مارکیٹ کا نظام، تعلیم وصحت کا کاروباراور موجودہ زمانےمیں پانی، بجلی، گندم کی شدید قلت کے ساتھ ماحولیاتی خطرات و تباہی کا تقابلی جائیزہ لینا بہت ضروری ہے۔

Hunza-Tashqurgan twin cities

صفی اللہ بیگ ایک  سیاسی و سماجی کارکن، اور  لکھاری ہیں ۔وہ  ثقافت   اور ماحولیات  کے تحفظ پر بام جہاں اور ہائی ایشیاء ہیرالڈ میں مضامین  اور تبصرے لکھتے ہیں اور ہائی ایشاء ٹی وی پر پروگرام کی میزبانی بھی کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں