رپورٹ: گل حماد فاروقی
چترال بونی شندور سڑک پر 75 سال بعد کشادگی اور تعمیر کا کام شروع ہوا ہے جس پر اس سیاحتی علاقے کے عوام نہایت خوش ہیں۔ اس سڑک پر سے ہر سال قاقلشٹ، بروغل اور شندور میلہ دیکھنے کے لئے ہزارو ں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح بھی گزرتے ہیں۔ تاہم عوام یہ شکایت کرتے ہیں کہ اس سڑک پر ہونے والا کام نہایت ناقص ہے۔چترال میں سڑکوں کی تعمیر اور اس میں بہتری کے لئے آواز اٹھانے والی غیر سیاسی تنظیم سی ڈی ایم یعنی چترال ڈیویلپمنٹ مومنٹ جس میں تمام اراکین رضاکارانہ طور پر بلا معاوضہ کام کرتے ہیں انہوں نے اس سڑک کا دورہ کرکے اس پر ہونے والے کام کا جائزہ لیا۔
سی ڈی ایم کے اراکین نے میڈیا کو بتایا کہ اس سڑک کے کنارے حفاظتی دیواریں نہایت ناقص اور غیر معیاری میٹیریل سے بن رہے ہیں۔ تعمیراتی کام غیر معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ سیمنٹ کے کام پر تھرائی یعنی اس پر پانی نہیں ڈالا جاتا جس کی وجہ سے سیمنٹ کا کام خراب ہوکر یہ حفاظتی دیواریں خود بخود گر رہی ہیں۔
سی ڈی ایم کے دورے کے دوران اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ ٹھیکدار عمر جان اینڈ کمپنی نے غیر قانونی طور پر اس کا م کا ٹھیکہ چھوٹے چھوٹے ٹھیکداروں اور عام مزدوروں میں بانٹا ہوا ہے جس سے کام کا معیار مزید خراب ہو رہ اہے۔
اس سڑک کی کشادگی کے وقت پہاڑ کے بیچ میں لمبا سرنگ کرکے اسے بارود سے گرایا جاتا ہے جس کی وجہ سے پورے پہاڑ میں دھراڑیں پڑ کر انتہائی خطرناک ہوچکی ہے اور زلزلے یا بارش، برف باری کی صورت میں گر کر بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔
چترال سے بونی تک 75 کلومیٹر سڑک میں 150 کلورٹ زیر تعمیر ہیں جن میں زیادہ تر غیر ضروری ہے مگر اس میں چونکہ پیسہ زیادہ ملتا ہے تو ٹھیکدار جان بوجھ کر زیادہ سے زیادہ کلورٹ بنا رہے ہیں۔ اکثر کلورٹ میں رکھنے والے پائپ کا لیول بھی برابر نہیں ہوتا جہاں سے پانی آتا ہے وہ سرا نیچے ہے اور جہاں سے پانی نکلتی ہے وہ اوپر ہے اس کے اوپر بغیر سریا کے سیمنٹ کا مسالہ ڈالا جاتا ہے جس پر پانی بھی نہیں ڈالا جاتا اور چند دنوں بعد یہ راکھ کا ڈھیر بن جائے گا۔
سی ڈی ایم کی ٹیم نے ضلع اپر چترال کے ڈپٹی کمشنر محمد خالد زمان سے بھی ان کے دفتر میں ملاقات کرکے ان کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ ڈی سی اپر چترال نے یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کی تحفظات کو وفاقی حکومت تک پہنچائیں گے۔
اس دورے کے دوران اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ اس سڑک میں ہونے والے کام کی معیار کو چیک کرنے کے لئے NESPAK کی جانب سے ریذیڈنٹ انجینئر صرف اپنے دفتر میں بیٹھ کر تنخواہ لیتے ہیں اور اس نے کبھی بھی اس کا معائنہ نہیں کیا حتیٰ کہ وہ ملازمت سے بھی سبکدوش ہوئے مگر ابھی تک اس کی نشست خالی ہے اس کی جگہ کوئی دوسرا انجنئر ابھی تک نہیں لگایا گیا جس کی وجہ سے ٹھیکدار کو کھلی چھوٹ مل رہی ہے اور اپنی مرضی سے ناقص کام کر رہا ہے۔
چترال کے سیاسی اور سماجی طبقہ فکر کے ساتھ ساتھ سی ڈی ایم کے اراکین بھی وفاقی حکومت سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سیاحتی علاقے کے سڑک پر کام میں تیزی لانے کے ساتھ اس کام کی معیار کو چیک کرکے اس میں بہتری لانے کے لئے ایک ایماندار انجینئر کو بھی تعنیات کیا جائے تاکہ یہ سڑک تکمیل کے بعد چند مہینوں میں دوبارہ خراب نہ ہو اور عوام کو مٹی اور گرد و غبار سے چٹکارا حاصل ہوکر ان کو سفر کرنے میں بھی آسانی ہو۔