چونکہ ہنزہ ضلع ایک مشہور سیاحتی مقام کا درجہ رکھتی ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ ضلع ہنزہ کو ایک سیاحتی ضلع قرار دے کر ایک با آختیار ضلع کونسل کا قیام عمل میں لانا چاہیے جس کے دائر اختیار میں مالی اور انتظامی اختیارات کے ساتھ زمین، پانی، پہاڑ، ندی نالے، جھیلوں کے ماحولیاتی استعمال اور ان کی تحفظ کی منصوبہ بندی کا اختیار ہو۔
تحریر: فرمان بیگ
گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کولے کر حلقہ بندیاں کی جا رہی ہیں اسی اثناء میں دیکھا جائے تو ضلع ہنزہ دیگر معاملات کی طرح بلدیاتی حلقہ بندیوں میں بھی سازش کا شکار ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے ماضی سے رائج یونین کونسل کے حلقوں کو توڑ مروڑ کر پنجاب طرز کے دیہی اور شہری علاقوں میں تقسیم کرکے ایک طرح سے ابہام سے بھر پور اور معروضی حقائق کی بجائے غیر منطقی تقسیم سے اقتدار کو نچلی سطح پر منتقلی، عوامی نمائندوں کو با اختیار بنانے کی بجائے انتظامیہ کو مزید مضبوط بنانے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ لگ رہا ہیں۔
انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ مجوزہ حلقہ بندی میں نہ ہی وسائل کی تقسیم، نہ ہی قدیمی حلقہ بندی اور نہ ہی جغرافیائی صورت حال کو سامنے رکھا گیا ہے دوسری طرف آبادی کو 2023ء کی مردم شماری کی بجائے 2017ء کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہنزہ کو دیہی اور شہری علاقوں میں تقیسم کرکے ایک طرح سے ہنزہ کی وحدت کو تقسیم کرنے، چند مقامی با آثر لوگوں کو خوش کرنے، انتظامیہ کےاختیارات کومزید مضبوط بنانے اور میونسپل کمیٹی کے ذریعے ضلع کونسل کو بے اختیار بنانے کے ساتھ مرکزی ہنزہ کے میونسپلٹی ایریا سے ڈسٹرک کونسل کی نشتوں کو ختم کرنا ایک سوچی سمجھی سازش نظر آرہا ہے جب کہ ضلع کا سربراہ یعنی ڈی سی ایک ہی ہے یونین تحصیل اور ضلع کونسلات ایک طرف اور دوسری طرف مرکزی ہنزہ میں میونسپل کمیٹی کا قیام مگر میونسپلٹی سے ضلع کونسل کے نشستوں کو ختم کر کے ضلع ہنزہ میں دو متوازی مقامی حکومتوں کو قائم کرنے جا رہے ہیں۔
ضلع ہنزہ جغرافیائی، آبادی اور رقبے کے لحاض سے دس یونیں کونسلوں چار تحصیل کونسلوں اور نو ڈسٹرک کونسل کے نشتوں کا متقاضی ہیں۔
انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ مجوزہ حلقہ بندی میں نہ ہی وسائل کی تقسیم، نہ ہی قدیمی حلقہ بندی اور نہ ہی جغرافیائی صورت حال کو سامنے رکھا گیا ہے دوسری طرف آبادی کو 2023ء کی مردم شماری کی بجائے 2017ء کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہنزہ کو دیہی اور شہری علاقوں میں تقیسم کرکے ایک طرح سے ہنزہ کی وحدت کو تقسیم کرنے، چند مقامی با آثر لوگوں کو خوش کرنے، انتظامیہ کےاختیارات کومزید مضبوط بنانے اور میونسپل کمیٹی کے ذریعے ضلع کونسل کو بے اختیار بنانے کے ساتھ مرکزی ہنزہ کے میونسپلٹی ایریا سے ڈسٹرک کونسل کی نشتوں کو ختم کرنا ایک سوچی سمجھی سازش نظر آرہا ہے
لہذا ضلع ہنزہ کی حلقہ بندیوں میں قدیمی حد بندیوں، جغرافیائی اور وسائل کے تقسیم کو مدنظر رکھتے ہوئے حلقہ بندیوں کو عمل میں لانا چاہیے جس کے لیے درجہ ذیل حلقوں کی تجویز ہیں۔
شناکی میں ایک تحصیل کونسل دو یونین کونسلات اور ضلع کونسل میں دو نشتیں مقرر ہونی چاہیے اسی طرح مرکزی ہنزہ میں مرتضی آباد اور حسن آباد ایک یونین کونسل اور احمد آباد تا سلمان آباد کو ملا کر ایک یونین کونسل کا حلقہ قرار دے کر ایک تحصیل کونسل کا قیام عمل میں لانا چاہیے اسی طرح سنٹرل ہنزہ کے میوسپلٹی ایریا سمت یونین کونسلات کے حلقوں سے ڈسٹرک کونسل کے لیے کم ازکم چار نشتیں مقرر ہونے چاہیے۔
گوجال کے لیے آئین آباد تا گلمت کمرس ملا کر ایک یونین کونسل غلکین تا پھسو ایک یونین کونسل شمشال کو ایک یونین کونسل خیبر غلہ پن مورخون جمال آباد گرچہ ملا کر ایک یونین کونسل سر تیز نظیم آباد سوست حسین آباد خدا آباد اور مسگر ملا کر ایک یونین کونسل اور وادی چیپورسن کو ایک یونین کونسل کا حلقہ قرار دے کر دو تحصیل کونسلوں کے ساتھ پانچ ڈسٹرک کے نشتیں مقرر کر دینی چاہیے۔
دوسری تجویز چونکہ ہنزہ ضلع ایک مشہور سیاحتی مقام کا درجہ رکھتی ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ ضلع ہنزہ کو ایک سیاحتی ضلع قرار دے کر ایک با آختیار ضلع کونسل کا قیام عمل میں لانا چاہیے جس کے دائر اختیار میں مالی اور انتظامی اختیارات کے ساتھ زمین، پانی، پہاڑ، ندی نالے، جھیلوں کے ماحولیاتی استعمال اور ان کی تحفظ کی منصوبہ بندی کا اختیار ہو۔ اس کے علاوہ تعمیرات، ٹرانسپورٹ، بنیادی تعلیم، صحت، سیاحت، بجلی و پانی اور کاروبار کے انتظام انصرام اور ٹیکس لگانے کا اختیار بھی شامل ہو جو ضلع کے ترقیاتی عمل کو آگے بڑھا سکیں
لہذا ہنزہ کے با آثر حلقوں کو چاہیے کہ ذاتی گروہی علاقائی مصلحتوں سے نکل کر ایک ہنزہ کے اجتماعی ترقی کے لیے تمام لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دست و بازوں بنے۔
مصنف کے بارے میں:
فرمان بیگ سماجی کارکن اور لکھاری ہے۔ سماجی و ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے وہ ریگولر بنیادوں پر لکھتے ہیں