Baam-e-Jahan

پروفیسر ایرک سپّرین کی یاد میں


تحریر: صلاح الدین حیدر


سیاہ رنگ کے شیڈ میں پروفیسر ایرک سپّرین کے نقوش کو ’’خطباتِ زندگی‘‘ کے سرورق پر شناخت کرنے میں مجھے زیادہ دیر نہیں لگی۔ میرے حافظے میں 1971ء کا زمانہ اُبھر آیا جب مَیں نے کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن کی رکنیت حاصل کی۔

یہ تنظیم کالج اساتذہ کے سماجی حقوق کے لیے سرگرم تھی اور تعلیم کے شعبے میں جمہوری کلچر کے فروغ کی ترجمان تھی۔ اس دور میں پروفیسر ایرک سپّرین، پروفیسر امین مغل اور پروفیسر منظور احمد کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا لیکن پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان کے خلاف ایک ردِعمل کی تحریک اُبھر آئی تھی اور علمی و سیاسی حلقوں میں پروفیسر ایرک سپّرین بطور ایک استاد دانشور، ٹریڈ یونین رہنما بہت احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔

 یہ دیکھا گیا کہ وہ اپنے کام وسرگرمیوں سے لگن کے ناطے کسی بھی ذاتی مفاد سے بے نیاز تھے۔ دوہرے و گھٹے ہوئے جسم، چھوٹے قد، پھیلی ہوئی ناک، سانولے رنگ اور زندگی کے حوادث مشکلات سے نمو پانے والی چہرے کی دانائی کے باعث وہ کسی بھی محفل میں آسانی سے پہچانے جاتے تھے۔

ایسوسی ایشن کے سالانہ اجلاس جو کہ عموماً دو دن جاری رہتے، میں پروفیسر ایرک سپّرین بہت توجہ سے دیگر دوستوں کے افکار و خیالات سُنتے نظر آتے۔ اور پھر جب اُنہیں اظہارِ خیال کی دعوت دی جاتی تو وہ ایک برملا جرأت مندانہ اور توانا اسلوب کے ساتھ اساتذہ کے مسائل پر مربوط اظہارِ خیال کرتے۔ ان محفلوں کے ناطے یہ بات علم میں آئی کہ تدریس میں کومٹمنٹ کسے کہتے ہیں۔

مذکورہ بالا پروفیسر صاحبان کے علاوہ پروفیسر خواجہ مسعود، پروفیسر منیر احمد خان، پروفیسر عبدالحئی، پروفیسر ظفر علی خاں، پروفیسر معراج دین، پروفیسر محمد عارف دیگر کئی اساتذہ زندگی سے محبت کو تدریس سے ہم آہنگ رکھنے کے علامتی نشان تھے۔ جب تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لینے کا عمل شروع ہوا تو پروفیسر مقصود الحسن جنرل سیکرٹری اور پروفیسر خالد سعید پبلسٹی سیکرٹری کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

اجلاسوں کی رپورٹیں ایک فائل میں رکھ کر خالد سعید موٹر سائیکل پر مجھے بھی ساتھ بٹھا لیتا اور ہم مختلف اخبارات کے دفاتر میں پریس ریلیز پہنچانے کے بعد میکلوڈ روڈ کے بعد کسی ریستوران میں ٹریڈ یونین دوستوں کے ساتھ چائے پیتے، لتا کے پرانے گانے سنتے یا کسی قریبی سینما میں ’’دو مٹیاراں‘‘ یا ایسی ہی کوئی فلم دیکھنے چلے جاتے یا ٹی ہاؤس میں ادیب، شاعر دوستوں سے عصری، ادبی مسائل زیرِ بحث لاتے، یا کسی گوشے میں پروفیسر امین مغل کو تلاش کر کے کچھ عاشقی اور کچھ کام کے امور سامنے لائے جاتے۔

شعبہ تعلیم میں ہماری آمد تو آسمان سے گرنے کے مترادف تھی لیکن کھجور میں اٹکنے کی معنی آفرینی تک رسائی میں ابھی دیر تھی۔ جب 1981ء میں میرا تبادلہ اچانک گورنمنٹ کالج نڑڑاکتحور (چھپ) ڈسٹرکٹ اٹک کر دیا گیا تو مجھے پتہ نہ تھا کہ کہاں پہنچنا ہے؟ تعیناتی کے مقام کی تلاش کے لیے مجھے دو بار اٹک سے پلٹ کر راولپنڈی آنا پڑا۔ یہاں فیض احمد فیض کی سالگرہ کی تقریب میں شرکت کی اگلے روز کسی پہچان کی تلاش میں اسلام آباد میں پروفیسر ایرک سپّرین سے ملاقات کے لیے اُن کے فلیٹ پر آ پہنچا۔

"ایسوسی ایشن کے سالانہ اجلاس جو کہ عموماً دو دن جاری رہتے، میں پروفیسر ایرک سپّرین بہت توجہ سے دیگر دوستوں کے افکار و خیالات سُنتے نظر آتے۔ اور پھر جب اُنہیں اظہارِ خیال کی دعوت دی جاتی تو وہ ایک برملا جرأت مندانہ اور توانا اسلوب کے ساتھ اساتذہ کے مسائل پر مربوط اظہارِ خیال کرتے۔ ان محفلوں کے ناطے یہ بات علم میں آئی کہ تدریس "میں کومٹمنٹ کسے کہتے ہیں۔

پروفیسر صاحب اُن دنوں شعبہ صحافت میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ملاقات کے دوران یہ بات علم میں آئی کہ وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہو چکے تھے لیکن انہوں نے شاعری پر شادی کو ترجیح دی اور اعجاز سپّرین کہلائے۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ اُن کی بیگم اُمتہ الکریم ان کی صحت اور دیگر امور کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ سپّرین صاحب سے کم و بیش دو گھنٹے مختلف امور پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا اور جب مَیں نے انہیں بتایا کہ میرا تبادلہ ڈسٹرکٹ اٹک کے ایک گاؤں کر دیا گیا ہے تو جرأت مندی سے مخصوص فیصلہ کن انداز میں ہاتھ اٹھا کر انہوں نے مجھے اپنے فلیٹ پر قیام کی دعوت دی لیکن مَیں نے انہیں بتایا کہ مجھے کچھ ہی دیر بعد لمبے سفر پر روانہ ہونا ہے۔

 ان کے بیٹوں ننھے سپّرینز عدنان منصور اور فرحان سچل سے بھی ملاقات ہوئی۔ ڈسکورسز آن لائف (خطباتِ زندگی) کا انتساب انہی کے نام کیا گیا ہے۔

اب صورتِ حال یہ تھی کہ مَیں نے اپنی تنخواہ پر سارے پنجاب کی سیر کر رہا تھا۔ بعض اوقات برادرم عابد عمیق بھی شریکِ سفر ہوتے۔ ایک بار لاہور آیا تو پروفیسر مقصودالحسن بخاری نے ’’ہسٹری کانفرنس‘‘ میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ اہلِ نظر کا ابھی تاریخ پر اعتماد مجروح نہ ہوا تھا۔ اس کانفرنس میں کئی مقالات پڑھے گئے۔

 جناب صفدر میر، عبداﷲ ملک اور دیگر کئی دانشوروں کے خیالات توجہ سے سنے گئے۔ لیکن جب پروفیسر ایرک سپّرین سٹیج پر اظہارِ خیال کے لیے آئے تو کم و بیش تمام زیرِ بحث افکار کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے تصورات کے پس منظر میں مادی تعلقات کی ایسی تشریح کی کہ شرکا اُن کے اندازِ نظر اور طرزِ استدلال پر دیر تک سر دُھنتے رہے۔

پروفیسر ایرک سپّرین 1911ء میں جہلم میں پیدا ہوئے۔ اس حوالے سے وہ سجاد ظہیر، مُلک راج آنند، مرزا ابراہیم، فیض احمد فیض، سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، ن۔م راشد، میرا جی، جسونت سنگھ کے ہم عصر تھے۔ ان کے حالاتِ زندگی کا خاکہ اُمتہ الکریم نے کتاب کے بیک کوّر پر مہیا کر دیا ہے۔ لیکن یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران نوآبادیاتی نظام کے خلاف کچلی ہوئی قوموں میں آزادی کی تحریک پروان چڑھ آئی تھی۔

پروفیسر ایرک سپّرین بھی اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے 1917ء کے انقلاب سے فکر و نظر کی رہنمائی حاصل کی۔ سانحہ جلیانوالہ باغ کے پس منظر میں وہ بھی ان نوجوانوں میں تھے جنہوں نے استبدادی حکمرانی کے خلاف ردِ عمل کو خرد افروزی سے مربوط کیا۔ پروفیسر ایرک سپّرین نے بی۔اے آنرز آکسفورڈ یونیورسٹی سے کیا اور ایم اے انگلش کی ڈگری فورمین کرسچین کالج سے حاصل کی۔ برطانیہ میں قیام کے دوران وہ لیبر پارٹی سے وابسطہ رہے۔ 1939ء میں وہ کمیونسٹ پارٹی کے ممبر بنے اور پارٹی کی ہدایت پر کرسچین کالج میں پروفیسری کو خیرباد کہہ کر مزدوروں، کسانوں کی تنظیم میں کام کرنے لگے۔ 1948ء میں پنجاب سے مندوب کی حیثیت سے کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے کلکتہ گئے اور واپسی پر شاہی قلعہ لاہور کے عقوبت خانے اور دیگر جیلوں میں اسیر رہے۔ محترمہ اُمتہ الکریم نے ’’خطباتِ زندگی‘‘ کے مختصر دیباچے میں انہیں انتھک روح کا مالک ایسا خاموش انقلابی قرار دیا جو عوام کی سیاسی، سماجی زندگی میں تبدیلی کا آرزومند رہا۔

’’خطباتِ زندگی‘‘ پروفیسر ایرک سپّرین کی متنوع ثقافتی و سیاسی موضوعات پر تحریروں کا مرقع ہے جو انہوں نے اسلام آباد کے اخبارات کے لیے 1991-94ء کے دوران تحریر کیے۔ دو سو انچاس شذرات پر مشتمل یہ دستاویز محض معمول کے اخباری کالموں کا مرقع نہیں بلکہ ان کا مطالعہ کرتے ہوئے درد و غم کے رشتے سے ایک وحدت تاثر سامنے آتی ہے۔ اس مختصر مضمون میں تمام شذرات کا تفصیلی جائزہ ممکن نہیں۔

پروفیسر ایرک سپّرین 1911ء میں جہلم میں پیدا ہوئے۔ اس حوالے سے وہ سجاد ظہیر، مُلک راج آنند، مرزا ابراہیم، فیض احمد فیض، سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، ن۔م راشد، میرا جی، جسونت سنگھ کے ہم عصر تھے۔ ان کے حالاتِ زندگی کا خاکہ اُمتہ الکریم نے کتاب کے بیک کوّر پر مہیا کر دیا ہے۔ لیکن یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران نوآبادیاتی نظام کے خلاف کچلی ہوئی قوموں میں آزادی کی تحریک پروان چڑھ آئی تھی۔

لیکن ان تحریروں میں سپرین کی تخلیقی شخصیت نے اپنے سماج کی بے بسی، کم عقلی، مغلوب طاقت پرستی اور اس کی بوالعجبیوں کو ہنروری اور فکری وابستگی کے امتزاج سے اُجاگر کیا ہے۔ مثلاً ’’بھینسے کا سمری ٹرائل‘‘ میں لکھتے ہیں ’’چکوال کی رپورٹ سے پتہ چلا ہے بھینسا ایک جاگیردار کے کھیت میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اور اُسے پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔‘‘ اس حوالے سے وہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ کیا دوسرے کے کھیت میں گھسنے کے الزام میں بھینسے کو سزائے موت دی جا سکتی ہے؟ ’’مرغیوں پر لڑائی‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ سرحد کے ایک گاؤں میں ایک مرغی کے تنازعے پر چار قیمتی جانیں چلی گئی۔

 وہ لکھتے ہیں کہ محض ایک مرغی کی ملکیت کا معاملہ نہیں رہا ہو گا بلکہ اس میں غیرت کا سوال بھی درپیش رہا ہو گا۔ ’’ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مہران یونیورسٹی انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی جامشورو نے ایسے گولڈ میڈل عطا کیے جو دراصل سونے کے بنے ہوئے نہیں تھے۔

 وصول کرنے والے کو صدمہ ہوا۔ وہ لکھتے ہیں کہ کسی کو بھی حیران نہ ہونا چاہیے کیونکہ یونیورسٹیاں بھی وہی کر رہی ہیں جو کہ باقی ملک کسی احتجاج کے بغیر کر رہا ہے۔ ’’اسلام آباد میں پلاٹ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں ’’یہ ہر طرح کے پلاٹوں کا شہر ہے۔ حکومت کو نکالنے کے پلاٹ، الیکشن جیتنے کے پلاٹ، ملک اور سیاسی مخالفوں کے خلاف پلاٹ، یہاں ایسے پلاٹ ہیں جو حکومتی ایجنسیاں بناتی ہیں اور ایسے بھی جن میں کوئی بھی شخص گھر یا پلازہ بنا سکتا ہے۔ ’’ابھی تک زیرِ تجربہ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کے نظریہ و عمل سے ایک طالب علم یہ نتیجہ نکالے گا کہ ملک جمہوریت کے میدان میں ایک بڑی تجربہ گاہ ہے۔

 وہ لکھتے ہیں کہ جموریت جب رہنماؤں کے مفاد میں ہو تو اُس کی تائید کرتے ہیں لیکن جب ان کے مفاد میں نہ ہو تو ان کے سیاسی نظریات بھی نامانوس ہو جاتے ہیں۔ استاد امام دین گجراتی کی تائید میں لکھتے ہوئے وہ خالد حسن کے کالم کے حوالے سے گجرات میں استاد کا تمسخر اڑائے جانے پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں اور کولونیل نظام ڈسپلن میں پنجابی زبان کی تذلیل پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں۔

طاقت، لالچ، لوٹ مار اور افراتفری کے پس منظر میں ہم کس طرح مفادات کا پل تعمیر کرتے ہیں اور پھر کیسے اس پر تمدن کی ٹریفک رواں رکھتے ہیں۔ پروفیسر ایرک سپّرین بہت بے ساختہ اور گہری نظر سے ان تضادات کا مشاہدہ کر کے مضحک تصاویر کو اُجاگر کرتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکنے اور معاصر سماجی رویوں کو برملا تنقیدی شعور سے دیکھنے کی تحریک مہیا کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں