Baam-e-Jahan

‘نو روز مبارک’


تحریر: فرنود عالم


موسمِ بہار کے استقبال کے لیے تقریبا ہر قوم قبیلے میں تہواروں، میلوں ٹھیلوں اور جھوم جھملیوں کی روایت موجود ہے۔

ہمارے نمائندہ تہواروں کا خطے میں آغاز ہوگیا ہے۔ لوہڑی اور ہولی کا تہوار گزر گیا ہے، نو روز کا تہوار آگیا ہے۔ بسنت اور بیساکھی کو بھی آنا چاہیے، مگر نہیں آئیں گے۔ آئیں گے بھی تو سرحد کے پار آئیں گے۔ ہمارے نصیب سے سب اچھے رنگ ایک ایک کر کے مٹا دیے گئے ہیں۔

قدیم ایرانی شمسی کیلینڈر کا آغاز یکم فروردین یعنی اکیس مارچ سے ہوتا ہے۔ سو ایرانی تہذیب میں نوروز کا جشن منا کر محض بہار کو خوش آمدید نہیں کہا جاتا، نئے سال کا  آغاز بھی کیا جاتا ہے۔

ایران سے کئی قومیں، تہذیبیں اور مذہبی دھڑے ہو کر گئے ہیں۔ جو گیا نوروز کے آتش دان سے ایک چنگاری توڑ کر گیا۔ ایران خود بھی کہیں سے ہو کر آیا تو نوروز کی چھاپ چھوڑ کر آیا۔

اس کی تاریخ حضرتِ مسیح کے عہد سے بھی بہت پہلے کی ہے۔ زرتشتوں نے نوروز کو سرکاری سطح پر منانے کی روایت ڈالی تو اس کے خاکے میں خوش رنگ علامتوں کا خوبصورت اضافہ ہوا۔

آگ، روشنی، سورج، روایتی ملبوس، پھول پودے، رقص و موسیقی، عطر، چراغ، دھونی، میوے اور خوردے نوروز کی علامتیں ہیں۔

اسی طرح !

دسترخوان پر سجائے جانے والے پھل پودے اور اوڑھے جانے والے رنگ در اصل انصاف، خوش حالی، مثبت سوچ اور درگزر کی علامات ہیں۔

نوروز ایران سے ہی پارسیوں کے ساتھ چلتا ہوا ہندوستان کے بازاروں میں آیا۔ مغلوں نے پھر اس کا اہتمام کیا۔ مقامی ثقافتوں کو اس کے خال و خد اپنے جیسے لگے۔ دل سے لگا لیا۔

اسماعلیوں، پارسیوں اور بہائیوں کی ہی وجہ سے یہ چراغ کراچی میں جلتے تھے۔ اب بھی جلتے ہیں، مگر اب لو ذرا مدہم ہوتی ہے۔

افغانستان میں بارود اور خون کی بو پھیلی تو نوروز کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ اس نے وہاں سے ہجرت کرلی۔ اور یہ کوئی پہلی ہجرت نہیں تھی۔

نوروز کی روشنی ڈیورنڈ لائن کو بغیر کسی ویزے کے عبور کرکے اکثر اِس طرف کے پشتون علاقوں میں نکل آتی تھی۔ ‘سپرلے’ کے میلوں میں گھل مل کر بہار کو ہرکلے کہتی تھی۔ پاڑا چِنار اور اس کے اطراف میں نوروز کے رنگ اب بھی پھیکے نہیں پڑے۔

امیر عبد الرحمن کے دور میں ہزارہ قوم نے ہرات اور بامیان سے کوئٹہ کی طرف ہجرت کی تو نوروز کی روایت بھی پھولوں والی چادر لپیٹ کر یہاں آگئی۔ اسی لیے کوئٹہ کی ہواوں میں نوروز کی مہک اب بھی محسوس کی جاتی ہے۔

لیکن نوروز کا حوالہ بلوچوں کے لیے کبھی نیا نہیں رہا۔ ایک تو بلوچستان اور ایران سنگ بہ سنگ ہیں۔ پھر عربوں کے تسلط اور انقلاب کے بعد جو پارسی اور بہائی یہاں وہاں فرار ہوئے، وہ کوئٹہ بھی آئے۔ پارسی اور بہائی آئیں، نوروز ساتھ نہ آئے، ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔

آذر بائیجان اور تاجکستان میں نوروز کے ڈنکے ہفتے دو ہفتے پہلے ہی پِٹ جاتے ہیں۔ رونقیں، تحفے تحائف، میل جول، عشوے اور اظہارئے ماحول میں سال بھر کے لیے مثبت انرجی سٹاک کر رہے ہوتے ہیں۔

تاجکستان کی وجہ سے یہ روایت ساتھ کے علاقے گلگت بلتستان میں اب بھی بھرپور نظر آتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بلتستان کے لیے یہ کوئی نئی روایت ہے۔ زمانے سے یہ روایت کشمیر میں ہولی اور دیوالی کے ساتھ ساتھ موجود تھی۔ وہیں سے اس نے بلتستان کی راہ لی اور پھر ہنزہ پہنچی۔

پھر اس خطے میں اسماعلی بھی تو ہیں۔ نوروز کا پانی اسی چینل سے گزر کر شندور اور اس کے پار تک جاتا ہے۔ شندور کے اس پار چترال میں بہار ہی کا ایک قدیم میلہ ‘چِلم جوش’ بھی سجتا ہے۔ کالاش میں اس کے رنگ ڈھنگ آپ دیکھ چکے ہوں گے۔ یوں سمجھیں یہ نوروز ہی ہے۔

بڑی بات یہ نہیں ہے کہ گلگت بلتستان میں یہ روایت بہت پہلے سے موجود ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ یہ روایت اب بھی موجود ہے۔ جب لاہور میں بسنت باقی نہیں رہا تو یہاں نوروز کیسے موجود ہے؟

در اصل ان کی ریت روایت اور تہذیب وتمدن پاکستان کے کلچر سے کوئی مناسبت ہی نہیں رکھتی۔ مناسبت جوڑنے کی انہیں کوئی آرزو بھی نہیں ہے۔ ان کی ثقافت کو لپیٹنے کے لیے تبلیغی سیلیبریٹیز کو بھیجا تو جاتا ہے، مگر نصرت نہیں مل پاتی۔

پاکستان کی کوئی معلوم ثقافت وجود ہی نہیں رکھتی۔ ثقافتیں تو در اصل یہاں بسنے والی قوموں کی ہیں۔ ان ثقافتوں کا خاتمہ کرکے یہاں ‘ایک قومی نصاب’ کی طرح عرب کلچر رائج کردیا گیا ہے۔

نو روز کی خوبصورتی یہ تھی کہ اس کی آنکھ میں یہیں سے جنم لینے والی تہذیبوں، قوموں اور مذاہب نے اپنے اپنے حصے کا سرمہ بھرا تھا۔

وبا کی دنوں میں جب لوگ گھروں تک محدود ہوگئے تھے، تب دنیا بھر کے انسانوں کو درد اور موسیقی کے علاوہ نوروز ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا تھا۔ امریکا تک میں یہ جشن بھرپور انداز میں آن لائن منایا گیا تھا۔

اس خطے میں ہولی سے چِلم جوشت تک بہار کے ہر میلے کا رنگ نوروز میں نظر آتا ہے۔ یہ سورج اور آگ کی روشنی ہے، جو سرحد کے آر پار برابر اترتی ہے۔ اب یہ سات پانیوں کے اُس پار بھی اترچکی ہے۔ تبھی تو یو این نے اسے کُل انسانیت کا ثقافتی ورثہ قرار دے دیا ہے۔

ہمارے ہاتھ سے نوروز نکل گیا۔ نوروز ہی کیا، خوشیوں کا ہر تہوار نکل گیا۔ ایسے ہر تہوار کی یاد میں سب کو نوروز مبارک۔

اپنا تبصرہ بھیجیں