Baam-e-Jahan

کوہستان ویڈیو سکینڈل:’انصاف کے تقاضے ابھی بھی پورے نہیں ہوئے‘

محمد زبیر خان

سنہ 2012 میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کوہستان میں ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی، بظاہر اس ویڈیو میں کسی شادی کی ایک تقریب میں چار لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر دو لڑکے روایتی رقص کر رہے تھے۔

یہ عام سی ویڈیو غیرت کے نام پر کئی افراد کے قتل کی وجہ اور اس معاملے کی بنیاد بنی جسے کوہستان ویڈیو سکینڈل کہا جاتا ہے۔

اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس میں دکھائی دینے والے دو لڑکوں اور تین لڑکیوں کو قتل کیا کر دیا گیا ہے لیکن حکام کی جانب سے کہا جاتا رہا کہ یہ دعویٰ غلط ہے۔

تاہم اب سات برس بعد رواں ماہ خیبر پختونخوا پولیس نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں تسلیم کیا ہے کہ ویڈیو میں نظر آنے والی چار میں سے تین لڑکیاں قتل ہو چکی ہیں۔
پولیس نے چند ہفتے قبل سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروائی ہے کہ تین لڑکیوں کے قتل کا مقدمہ درج کر کے چار ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ چار فرار ہیں اور ایک پہلے ہی قتل ہو چکا ہے۔

انسانی حقوق کی ممتاز کارکن فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ بات یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ سات سال بعد تسلیم کرلیا گیا ہے کہ لڑکیاں قتل ہو چکی ہیں۔ مقدمہ درج کر کے کچھ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مگر گذشتہ سات سالوں تک انصاف کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی گئی ہیں۔ پولیس اور سابقہ حکومتوں کے تقریبا تمام ہی اعلیٰ اہلکاروں نے ہمیشہ یہ کہا تھا کہ لڑکیاں زندہ ہیں اور عدالتوں میں بیانات حلفی بھی جمع کروائے تھے۔

فرزانہ باری کہتی ہیں کہ ’اب جبکہ پولیس نے خود ہی سپریم کورٹ میں تسلیم کرلیا ہے کہ تین لڑکیاں قتل ہوچکی ہیں تو قتل کے اس ہولناک واقعے کو چھپانے والے، اس میں مدد فراہم کرنے والوں کے خلاف ابھی تک کاروائی کیوں نہیں ہورہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو یہ کہا جاتا رہا تھا کہ پانچوں لڑکیاں زندہ ہیں اب تین لڑکیوں کے قتل ہونے اور دو کے زندہ ہونے کا کہا گیا ہے مگر جن لڑکیوں کے زندہ ہونے کا کہا گیا ہے ان کی زندگی کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے گے ہیں۔

’اگر وہ لڑکیاں زندہ ہیں تو ان کو عدالت میں کیوں پیش نہیں کیا گیا ہے ؟ انصاف کے تقاضے ابھی بھی پورے نہیں ہوئے ہیں اور میں دوبارہ عدالت سے رجوع کرنے جارہی ہوں۔‘
کوہستان ویڈیو سکینڈل کیا ہے؟

خیال رہے کہ 2012 میں ضلع کوہستان کے علاقے پالس میں شادی کی ایک تقریب کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں چار لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر دو لڑکے روایتی رقص کررہے تھے۔ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ویڈیو میں رقص کرنے والے بن یاسر اور گل نذر کے بھائی افضل کوہستانی نے دعویٰ کیا تھا کہ وڈیو میں نظر آنے والی لڑکیاں بازغہ، سیرین جان، بیگم جان، آمنہ اور ان کی کم عمر مددگار شاہین کو ذبح کرکے قتل کردیا گیا ہے۔

افضل کوہستانی کے اس دعوے کے بعد انسانی حقوق کارکنوں نے احتجاج کیا تھا جس پر اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس افتخار چوہدری نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے عدالتی کمیشن قائم کیا تھا۔ اس کمیشن کی رپورٹ میں لڑکیوں کو زندہ قرار دیا گیا تھا مگر انسانی حقوق کی کارکن اور کمیشن کی ممبر فرزانہ باری نے اس رپورٹ سے اختلاف کرتے ہوئے واقعہ کی مکمل انکوائری کرنے کی استدعا عدالت میں دائر کردی تھی۔

جس کے بعد سپریم کورٹ نے پہلے خاتون جوڈیشنل افسر منیرہ عباسی کی سربراہی اور بعدازاں سال 2016 میں اس وقت کے ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج داسو، کوہستان محمد شعیب کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا۔

محمد شعیب کی سربراہی میں قائم ہونے والے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لڑکیوں کے زندہ ہونے کے حوالے سے شکوک کا اظہار کرتے ہوئے فارنزک تحقیقات کی تجویز دی تھی۔ جس پر سرپم کورٹ آف پاکستان کے دو رکنی بینچ جس کی سربراہی ریٹائر ہوجانے والے جج ، جسٹس اعجاز افضل کررہے تھے نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ جوڈیشنل آفسیر محمد شعیب کی پیش کردہ رپورٹ کی روشنی میں مکمل تحقیقات کرکے عدالت میں رپورٹ پیش کرے۔

جسٹس اعجاز افضل کے ریٹائر ہونے کے بعد چیف جسٹس، جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس سال کے ابتدائی دونوں مقدمہ کی سماعت کی تھی جس میں خیبر پختونخوا پولیس نے تسلیم کیا کہ تین لڑکیاں قتل ہو چکی ہیں اور رپورٹ پیش کی تھی کہ لواحقین نے بیان حلفی دیا ہے کہ دو لڑکیاں زندہ ہیں اور ان کو جلد پیش کردیا جائے گا۔
’پانچ نہیں تین لڑکیاں قتل؟‘

لڑکیوں کے قتل ہونے کا دعویٰ کرنے والے افضل کوہستانی اب بھی اپنے دعویٰ پر قائم ہیں کہ تین نہیں پانچوں لڑکیاں قتل ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر پشاور ہائی کورٹ ایبٹ آباد بینچ سے رجوع کرکے استدعا کررہے ہیں کہ لڑکیوں کے قتل کی تفتیش مقامی پولیس سے نہیں بلکہ کرائم برانچ سے کروائی جائیں تاکہ مناسب انداز میں ثبوت اکھٹے کرکے عدالت میں پیش ہو سکیں، واقعے کے درج مقدمہ میں دہشت گردی کی دفعات شامل کی جائیں اور باقی دو لڑکیوں اگر زندہ ہیں تو ان کو عدالت میں پیش کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان پر یہ سات سال انتہائی بھاری گزرے ہیں۔ ’میرے تین بھائی قتل ہوئے ہیں، ہمارے مکانات، زمین جائیداد ، باغات اورجنگلات پر قبضہ کر کے ہمیں علاقے سے بے دخل کردیا گیا ہے ۔ ہر وقت مجھے اور میرے اہل و اعیال کو جان کا خطرہ رہتا ہے ۔ اب بھی اگر انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوئے تو پھر کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل روکنا ناممکن ہوجائے گا۔‘

پولیس کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی ) قائم کی گئی تھی ۔ جس نے اس سارے کیس کی نادرا کی مدد سے جدید انداز میں تفتیش کی ہے ۔ دوران تفتیش پانچ میں سے تین لڑکیوں کے قتل ہونے کی اطلاعات دستیاب ہوئی ہیں ۔ تین مقتول لڑکیوں بیگم جان، بازغہ اور سیرین جان کے نو قریبی رشتہ داروں پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جس میں چار ملزماں کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ ایک پہلے ہی قتل ہوچکا ہے اور چار ملزم فرار ہیں۔

پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرفتار ملزماں نے پولیس حراست میں بیانات دیتے ہوئے اقرار جرم کیا تھا ااور بتایا تھا کہ افضل کوہستانی کی جانب سے ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں اچھالے جانے کے بعد وہ سب اس خوف میں مبتلا ہو چکے تھے کہ کہیں حکام ان کی لڑکیوں کو ان سے جدا کرکے دوسرے ملک نہ بھج دیں۔ جس پر گرفتارملزم سبیر اور سرفراز جو کہ قریبی عزیز ہیں تین لڑکیوں بیگم جان، بازغہ اور سیرین کو لیکر آمنہ اور شاہین کے گاؤں جارہے تھے تاکہ ان پانچوں لڑکیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جاسکے ۔

تاہم جب یہ لوگ آمنہ اور شاہین کے گاؤں میں پہنچے تو اس وقت ایک نامزد ملزم شمس الدین نے جو کہ چند ہفتے قبل خود بھی قتل ہو چکا ہے خود کار اسلحہ سے فائرنگ کرکے تینوں لڑکیوں کو قتل کردیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ملزماں نے اپنے بیانات میں پولیس کو بتایا ہے کہ تینوں لڑکیوں کی نعشوں کو قریبی ندی میں پھیک دیا گیا تھا۔ پولیس نے رپورٹ میں کہا ہے کہ واقعے کے چھ سال بعد نعشوں کو تلاش کرنے کی پوری کوشش کی گئی مگر کامیابی نہیں مل سکی تاہم دوران تفیش قتل ہونے والے شمس الدین کے والد ساعیر سے جو کہ خود بھی نامزد ملزم ہیں آلۂ قتل بر آمد کرلیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملزماں کو جوڈیشنل مجسٹرئیٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تو انھوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

رپورٹ میں زندہ قرار دی جانے والی آمنہ اور شاہین کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کا نادرا کے پاس بھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے ۔ ان کے خاندان والوں نے وعدہ کیا ہے کہ دونوں کو جلد پولیس کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔
غیرت کے نام پر قتل

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی مرتب کردہ رپورٹوں کے مطابق سال 2016 میں 1100 ، سال 2014 میں ایک ہزار ، سال 2013 میں 869 خواتین غیرت کے نام پر اپنی قریبی رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل ہوئی ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن کی سال 2017 کے حوالے سے مرتب کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال پورے ملک کی پولیس اور سرکاری اداروں سے اکھٹے ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق قتل ہونے والی خواتین کی تعداد تین سو نو بنتی ہے مگر یہ تعداد قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ سال 2017 میں مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی غیرت کے نام پر قتل کی رپورٹیں اس سے کئی زیادہ ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کی اصل تعداد ظاہر کی گئی تعداد سے کئی زیادہ ہوسکتی ہے۔

ممتاز قانون دان اور انسانی حقوق کے کارکن ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی عدالتوں میں عمومی طور پر پولیس کی حراست میں ملزم کے دیے گئے بیان کو زیادہ قابل اعتماد نہیں سمجھا جاتا بلکہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں دیے گے بیان کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کو چھپانے کی جگہ پر اس کا مقدمہ درج کروایا دیا جاتا ہے مگر عدالتوں میں ثبوت پیش نہیں کیے جاتے جس وجہ سے ملزمان بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کوہستان ویڈیو سکینڈل ہو یا کوئی بھی قتل کا مقدمہ عدالت میں صرف یہ ثابت کرنا کافی نہیں ہے کہ لڑکیاں قتل ہو چکی ہیں بلکہ ملزمان کو قاتل ثابت کرنے کے لیے ٹھوس ثبوتوں، گواہوں اور شہادتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور غیرت کے نام پر قتل ہونے والے مقتول یا مقتولہ کا پولیس یا سرکاری استغاثہ کے علاوہ مقدمہ کی پیروی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ہے جس وجہ سے بھی مقدمے کی مناسب انداز میں پیری نہیں پاتی جس کا فائدہ ملزمان کو ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل میں اکثریت ملزمان کی عدالتوں سے بری ہو جاتی ہے۔

بشکریہ بی بی سی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے