Baam-e-Jahan

اسلم گورداسپوری کی خود نوشت

اسلم گورداسپوری نظریاتی سیاسی کارکنوں کی مٹتی ہوئی نوع سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ نوع ایسے سیاسی کارکنوں پرمشتمل ہوا کرتی تھی جن کی جدوجہد کا فوکس ذاتی خوشحالی اورترقی کی بجائے سماج کے پسے ہوئے طبقات کی بہتری اورخوشحالی ہوتا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں نظریاتی کارکنوں سے خالی ہوچکی ہیں اوران کی باگ ڈور پاوربروکرز کے ہاتھ میں آچکی ہے۔ اب سیاسی جماعتوں کا انحصار سیاسی کارکنوں کی بجائے پاوربروکرز پر بڑھ چکا ہے۔ سیاسی کارکنوں کو مٹانے میں جہاں کنزیومرازم نے رول ادا کیا ہے وہاں سیاسی جماعتوں کی ہرصورت اورہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کی خواہش نے بھی سیاسی کارکنوں کی اہمیت و حیثیت کو بہت حد تک کم کردیا ہے۔سیاسی پارٹیاں میں مختلف عہدوں پرسیاسی کارکنوں کی بجائے پاوربروکرز براجمان ہیں۔یہ پاور بروکرز ہی ہیں جو سیاسی جماعتوں کو طاقت کے مراکز کے قریب یا دور کرتے ہیں۔ سیاسی کارکن جدوجہد پر یقین رکھتے تھے جب کہ پاور بروکرز سازش اور ہیر پھیری کے ذریعےسیاسی پارٹیوں کو اقتدار کے قریب یا دور کرتے ہیں۔
نظریاتی کارکنوں کی نوع سے تعلق رکھنے والے اسلم گورداسپوری نے اپنے سفر زیست کوّتجھے اے زندگی لاوں کہاں سےٗ کے عنوان سے قلم بند کیا ہے۔انھوں نے اپنی خود نوشت میں نہ صرف اپنے سیاسی اورسماجی تجربات بیان کئے ہیں بلکہ گذشتہ پانچ دہائیوں سے ہماری سیاسی تاریخ کی اہم سیاسی شخصیات اور سیاسی واقعات کا بھی معروضی تجزیہ کیا ہے۔ تقسیم ہند سے پانچ سال قبل ضلع گورداسپور کی تحصیل بٹالہ کے گاوں سات کوہا میں پیدا ہونے والے اسلم گورداسپوری نے اپنی تعلیم کا سلسلہ ماڑی ٹھاکراں ضلع گجرانوالہ میں شروع کیا جہاں ان کا خاندان قیام پاکستان کے بعد نقل مکانی کرکےآبسا تھا۔ اسلم گورداسپوری نے اپنے ابتدائی تعلیم ،سکول کے ماحول،اساتذہ کے طلبا سےغیرانسانی رویوں کوبہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان دنوں مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرکے آنے والوں کو جن گونا گوں معاشی، سماجی مسائل کا سامنا ان کا نقشہ بھی انھوں نے بہت تفصیل سے کھینچا ہے۔ کسمپرسی اور معاشی ناداری کے مارے ہوئے ان مہاجروں کے پاس نہ کچھ کھانے کو تھا اورنہ پہننے کو۔

میٹرک کرنے بعد انھیں اپنی بڑی بیوہ بہن کےپاس ڈیرہ غازی خان جاناپڑا اوران کی ذہنی تشکیل میں بہت زیادہ کردار ان کے قیام ڈیرہ غازی خان نے ادا کیا۔ یہاں ہی وہ شاعری،ڈرامے اور اداکاری سے متعارف ہوئے۔ خالد کامریڈ شخص نے ان کی ذہنی تبدیلی میں اہم رول ادا کیا تھا۔ان میں اس وقت بنیادی تبدیلی اس وقت وقوع پذیر ہوئی جب وہ معروف شاعر اور دانشور ظہیر کاشمری سے متعارف ہوئے تھے۔ ظہیر کاشمیری نہ صرف اپنے عہد کے بہت بڑے شاعر تھے بلکہ ان کا شمار مارکسی فکر کے سرخیلوں میں ہوتا تھا۔ اسلم گورداسپوری کی ذہنی تراش خراش میں ظہیر کاشمری نے فیصلہ کن رول اداکیا اور انھیں ترقی پسند شاعری اور سیاست کی طرف راغب کیا۔ اسلم گورداسپوری ظہیر کاشمیر ی کو اپنا استاد بتاتے اور اپنی فکری اور نظریاتی تبدیلیوں کو انہی کی صحبت کا مرہون منت قرار دیتے ہیں۔
اسلم گورداسپوری پیپلزپارٹی کے بانی ارکان میں ہوتا ہے اور ایک وقت میں وہ بھٹو کے قریبی ساتھیوں اور کارکنوں میں شمار ہوتے تھے۔ بھٹو کے جلسوں میں ان کی نظم ایک اہم آیٹم ہوا کرتا تھا۔ پیپلزپارٹی جب برسر اقتدار آئی تو اس کے لیڈرز کا نظریاتی ملمع جس طرح اترا اسلم گورداسپوری اس کا ذکر بھی بلا لگی لپٹی کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے وہ لیڈرزجو عوامی حقوق کی قسمیں کھایا کرتے تھے اقتدار میں آتے ہی عوام پر حکمرانی کا رعب جھاڑنے لگے تھے۔
اسلم گوروداسپوری کی سب سے اہم آبرزویشن ایم آرڈی بارے ہے۔ تحریک بحالی جمہوریت کو پاکستان میں مارشل لا کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کے لئے سبے سے بڑی اور موثر تحریک سمجھا جاتا ہے لیکن گورداسپوری سے اسے اسٹیبلشمنٹ کا بنایا ہوا اتحاد بتاتے ہیں جو کا مقصد بھٹو خواتین کو کنٹرول کرنا تھا۔ یہ تحریک ان کے بقول 1985کے غیر جماعتی انتخابات کے بایکاٹ کرنے کے لئے چلائی گئی تھی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بھٹو کو پھانسی دلانے میں اس وقت کی تمام سیاسی قیادت نے جنرل ضیا کو تعاون اور حمایت فراہم کی تھی۔
1988 میں پیپلزپارٹی کی قیادت کس طرح ٹکٹوں کی خرید و فروخت کی تھی اس کو بھی اسلم گورداسپوری نے بہت تفصیل سے بیان کیا ہے اور ان افراد کو بے نقاب کیا ہے جو انتخابی امیدواروں سے ٹکٹ دینے کے لئے رقوم بٹورتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے کچھ رہنماوں کے لئے یہ انتخابات سٹاک مارکیٹ بن گئے تھے جو ہرروز ٹکٹوں کو نئے نئے بھاو نکالتے تھے اور یہ ٹکٹوں کی تقسیم کے فیصلے کراچی کی ایک کاروباری شخصیت اختر جاوید پیرزادہ کے بنگلے پر ہوتے تھے جن کا بظاہر پارٹی اور سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
1970 اور1980کی دہائیوں میں پاکستان بالخصوص پنجاب کی سیاست، پیپلزپارٹی کا عروج وزوال، مختلف سیاسی لیڈرروں کی اصول پسندی اور موقع پرستی کو انھوں نے غیر جابنداری سے بیان کیا ہے۔ ان کی یہ خود نوشت ان افراد کے لئے پڑھنا ضروری ہے جو یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ ہماری سیاست میں نظریاتی زوال کئ پس پشت کون سے محرکات اوروجوہات ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں