تحریر۔ کریم اللہ
سوشل میڈیا نے جہاں دنیا بھر سے براہ راست ہمیں جوڑ دیا۔ آج ہم دنیا بھر میں پیش آنے والے واقعات کو اپنے گھر بیٹھے موبائل اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔
مجھے گلگت بلتستان کی صورتحال کو دیکھنے کا موقع اس وقت ملا جب آج سے کئی برس پہلے غالبا 2011ء کو کالج کے زمانے میں گلگت جانے کا اتفاق ہوا۔ اس کے بعد جب پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو ایک دن کتاب گھر میں مجھے ایک انگریزی تحقیقی مقالہ ملا جس کا نام ”گلگت بلتستان کرائسز اینڈ پراسپریکٹیو” تھا۔ جو کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹیڈیر نے چھاپا تھا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا نے گلگت بلتستان سے متعلق ہماری تجسس کو دوام بخشنے میں اہم کردار ادا کیا۔ گزشتہ چار سالوں سے گلگت بلتستان میں بہت حد تک تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ 2014ء میں وہاں گندم کی سبسڈی ختم کرنے کا اعلان ہوا تو عوامی ایکشن کمیٹی نامی ایک پلیٹ فارم وجود میں آیا جس نے طویل احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں و ہڑتالوں نے پاکستانی حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی ہر معاملے میں متحرک نظر آتی رہی ہے۔
گلگت بلتستان میں حقوق کی جدوجہد ہو یا کوئی بھی احتجاجی مظاہرہ، بلتستان جسے چترال میں صرف سکردو کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔۔ یہاں کے عوام ہر موقع پر نمایاں کردار اداکرتے آتے ہیں۔ اس لحاظ سے بلتستان کے عوام کو جی بی کا سب سے باشعور اور سیاسی طور پر متحرک طبقہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ دراصل گلگت بلتستان میں چلنے والی کسی بھی تحریک کو کامیاب بنانے میں بلتستان کے عوام کا خاص کردار ہے۔ ان دنوں بھی ایک عالم دین کی گرفتاری پر پورا بلتستان متحرک ہے۔ دراصل خطہ بلتستان پورے گلگت بلتستان میں مذاحمتی تحریک کی علامت بن چکا ہے۔
زیر نظر تصاویر شیخ حسن جوہری کی گرفتاری کے بعد عوامی احتجاج کی ہیں۔