Baam-e-Jahan

عورت مارچ: ’گالیوں بھرے پیغامات کے ساتھ مجھ پر تیزاب پھینکنے کی دھمکی دی جارہی ہے‘

تحریر: سحر بلوچ

اس ماہ کی 15 تاریخ کو کراچی کے علاقے لیاری میں وہاں کے ایک صحافی کے بارے میں تین محلوں کی مسجدوں میں جمعے کے خطبے میں اعلانات کروائے گئے۔ ان خطبات میں الزام لگایا گیا کہ ‘یہ شخص غیر ملکی ایجنڈے پر کام کررہا ہے اور علاقے کی لڑکیوں کو ورغلا کر کر انھیں اسلام اور تہذیب سے دور کررہا ہے۔’

یہی پیغام سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بُک اور واٹس ایپ پر بھی جاری کیا گیا جس کے بعد اس صحافی کو دوستوں کی طرف سے فون موصول ہونا شروع ہوئے اور انھیں احتیاط کرنے کی تنبیہ بھی کی گئی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لیاری سے تعلق رکھنے والے اس صحافی نے بتایا کہ ان کے ساتھ یہ سب عورت مارچ میں لیاری کی بچیوں اور خواتین کو لے جانے کے سبب کیا جارہا ہے۔

‘عورت مارچ کے بعد میرے ایک دوست نے مجھے کہا کہ مسجد میں تمہارے خلاف خطبہ سننے کے بعد میں نے اپنے مولانا صاحب سے بات کی کہ آیا تم سے تعلق رکھا جاسکتا ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ اس دوست سے تعلق رکھ سکتے ہو اور اجازت ملنے کے بعد ہی وہ مجھ سے ملنے آیا۔’

عورت مارچ میں شامل لوگوں کے لیے مشکلات
اس ماہ کی آٹھ تاریخ کو پاکستان کے مختلف شہروں سمیت کراچی کے فرئیر ہال میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر بڑے پیمانے پر خواتین جمع ہوئیں اور اپنے حقوق اور مطالبات پوسٹرز اور بینرز کی شکل میں عوام کے سامنے رکھے۔

ان میں سے چند بینرز اور پوسٹرز پر درج کیے گئے پیغامات کی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر تنقید ہوئی اور بات اب اس نہج تک پہنچ گئی ہے کہ عورت مارچ میں شامل ہونے والی کئی خواتین اور ان کو وہاں تک لانے والے چند مردوں کو مختلف طریقوں سے دھمکایا جا رہا ہے۔

عورت مارچ میں شامل ایک لڑکی نے بی بی سی سے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی صورت میں بتایا کہ ‘میں نے جو پوسٹر اٹھایا ہے وہ اس وقت فیس بُک پر وائرل ہوگیا ہے۔ اس کے نیچے کئی مردوں نے گالیاں دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کو ہم بتاتے ہیں کہ آوارہ کہلانا کیا ہوتا ہے۔’

حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی نے بتایا کہ فیس بُک پر ایک صفحہ چلایا جارہا ہے جس کی دیکھ بھال ایک سیاسی جماعت کے ہاتھ میں ہے۔

‘اس پیج کے ذریعے چند مشہور ہونے والے بینرز پر لکھے ہوئے الفاظ کو فوٹو شاپ کے ذریعے نہایت ہی فحش زبان میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اس سے ہمیں مزید خطرات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے کیونکہ وہ بھی وائرل ہورہے ہیں۔ عورت مارچ میں شرکت کرنے کے بعد میرے ذاتی فیس بُک پیج پر مجھے گالیوں بھرے پیغامات کے ساتھ ساتھ مجھ پر تیزاب پھینکنے کی دھمکی دی جارہی ہے۔’

عورت مارچ منتظمین کی جانب سے اس وقت فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کو ایک رپورٹ بھیجی گئی ہے جس میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق کم از کم 15 خواتین کی طرف سے فیس بُک اور مختلف ویب سائٹ سے موصول ہونے والی دھمکی آمیز مواد کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے عورت مارچ کی ایک منتظم نے بتایا کہ ‘زیادہ تر دھمکیاں مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے آرہی ہیں جن میں ہمیں جان سے مارنے کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ ریپ کرنے کی دھمکی دی جارہی ہیں۔’

اس قسم کی دھمکیاں ملنے کی زیادہ تر شکایات اب تک سندھ کے شہر کراچی سے موصول ہورہی ہیں۔ اس کے بعد حیدرآباد، لاہور اور پشاور میں خواتین کو آن لائن تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

عورت مارچ منتظمین کے مطابق پاکستان کے مختلف چھوٹے شہروں میں عورت مارچ کا نام استعمال کرنے کے بجائے ‘وومن ڈیموکریٹک فرنٹ’ اور ‘ہم عورتیں’ جیسے نام استعمال کیے گئے تاکہ ان کو مشکلات کا سامنا نہ ہو اور وہ اپنی مرضی کے مطالبات بھی سامنے لاسکیں لیکن عورت مارچ پر ہونے والی تنقید کے نتیجے میں ان خواتین کو اپنی برادریوں میں اب تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں عوامی ورکرز پارٹی کی ایک رکن کے خلاف ان کی ہی پارٹی کے ایک رکن نے جماعت کی سینٹرل کمیٹی میں شکایت اس بنیاد پر درج کی کہ ‘ان کی اس مارچ میں شمولیت پارٹی کے اخلاقی دائرے کی خلاف ورزی ہے۔’

خیبر پختونخواہ اسمبلی میں عورت مارچ کے خلاف قراردار پیش
اسی ماہ کی 20 تاریخ کو خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی میں متحدہ مجلسِ عمل کی ریحانہ اسماعیل نے عورت مارچ کے خلاف ایک قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا کہ مارچ کے ذریعے خواتین نے ‘فحش نعرے لگائے’ اور ان کے خلاف وفاقی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ ان ‘درپردہ قوتوں کے خلاف کاروائی کرے۔’
اس قرارداد پر دستخط کرنے والوں میں ایم ایم اے کی خواتین کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی خواتین بھی شامل تھیں جن کو کافی تنقید کا سامنے کرنا پڑا۔

صوبائی اسمبلی کی پہلی خاتون ڈپٹی سپیکر مہر تاج روغانی بھی اسمبلی میں پیش ہونے والی قرارداد کے بارے میں مثبت رائے رکھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ قرارداد ٹھیک ہے۔

‘فحش زبان ہماری ثقافت کا حصہ نہیں ہے اور اس طرح کی زبان استعمال کرکے ہم اپنے مقاصد کے خلاف جارہے ہیں۔ ہم نے گھریلو تشدد کے خلاف بِل منظور کروایا۔ اس کا سدِ باب تو ہونے دیں۔ یہ کہنا کیسی بات ہوئی کہ میرا جسم میری مرضی؟ ہمارا مذہب اور ثقافت ان باتوں کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمیں اپنے دائرے میں رہنا چاہیے۔‘

اس حوالے سے حکومتی ذرائع بتاتے ہیں کہ اب تک پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے سندھ سے تعلق رکھنے والے عورت مارچ کے چند منتظمین اور انسانی اور سماجی حقوق پر کام کرنے والے افراد نے ملاقات کی جس میں بلاول بھٹو نے ان کو ‘تسلی دیتے ہوئے مکمل تعاون کی امید دی ہے۔’

یاد رہے کہ چند روز قبل سندھ اسمبلی میں ایم ایم اے کے رکن سید عبدالرشید نے بھی قرار داد پیش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکی۔

‘اگر کچھ ہو تو ون فائیو کو فون ضرور کیجیے گا’
لیاری سے تعلق رکھنے والے صحافی نے بلاول بھٹو سے ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ملاقات حکومتی ارکان کے علاوہ پولیس افسران سے بھی ہوئی۔

‘مجھ سے کہا گیا کہ آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اور آپ کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔ لیکن مجھے باہر چھوڑتے ہوئے ڈی آئی جی پولیس نے کہا کہ اگر کوئی حملہ کرے تو ون فائیو کو ضرور فون کرنا۔’

انھوں نے بتایا کہ ان کے خلاف مساجد میں خطبات چلنے کے بعد اُسی روز ایک خط بھی موصول ہوا جو ان کے علاوہ لیاری میں موجود علما، مختلف مساجد کے امام اور مختلف برادریوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کو بھی بھیجا گیا تھا۔

اس خط میں ان صحافی کے علاوہ سماجی اور انسانی حقوق پر کام کرنے والے چند اور افراد کا بھی نام لیا گیا اور کہا گیا کہ ‘غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے والے ان افراد کے خلاف قرآن و حدیث کے مطابق قدم اٹھایا جائے کیونکہ انھوں نے اپنے بینر میں ‘میرا جسم میری مرضی جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔’

لیاری سے تعلق رکھنے والے صحافی صرف صحافت ہی نہیں بلکہ خواتین اور خاص کر بچیوں کے فلاح کے لیے ایک کیفے چلاتے ہیں جس میں لڑکیوں کو تعلیم کے علاوہ، سائیکل چلانے، نئی زبانیں سیکھنے اور دیگر فن سکھائے جاتے ہیں جو ان بچوں کے والدین کہیں اور سکھانے کی سکت نہیں رکھتے۔

لیکن عورت مارچ پر ہونے والی تنقید اور منتظمین کو دھمکی آمیز پیغامات ملنے کے نتیجے میں والدین اب اپنی لڑکیوں کو کیفے بھیجنے سے کترا رہے ہیں۔

‘اس بار جو انگریزی کی کلاس ہوئی اس میں صرف 13 لڑکیاں تھیں جبکہ ہمارے کیفے میں کافی بڑی تعداد ہوتی ہے۔’

انھوں نے کہا: ‘آپ اسی سے تحریک کے مستقبل کا اندازہ لگالیں۔ کل کو اگر لوگوں نے اس نوعیت کے مارچ میں شامل ہونے سے ڈر محسوس کیا تو مجھے بذاتِ خود اس بات کا بہت افسوس ہوگا کیونکہ اس مارچ کے پیچھے ایک اچھی سوچ ہے۔’

لیاری سے منسلک صحافی کا کیس سامنے لانے میں سماجی حقوق پر کام کرنے والی کارکن اور اسسٹنٹ پروفیسر ندا کرمانی پیش پیش رہی ہیں۔

عورت مارچ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘ہم سب کو اس بات کا علم تھا کہ کچھ حد تک ردّعمل سامنے آئے گا جیسا کہ پچھلے سال کے عورت مارچ کے بعد ہوا۔ لیکن جہاں پچھلے سال تنقید سوشل میڈیا تک محدود تھی وہیں اس سال اس تنقید میں ایک شدت کا عنصر موجود ہے۔’

انھوں نے کہا: ‘اب تک کوئی پرتشدد واقعہ پیش نہیں آیا ہے لیکن سوشل میڈیا اور مختلف حلقوں کی جانب سے سامنے آنے والی شدید تنقید کے باعث عورت مارچ سے جُڑے بہت سے لوگ ایک غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں۔’

پروفیسر ندا نے کہا کہ اس طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مارچ نے صنفی اقدار کے بارے میں موجودہ خیالات اور روایات کو چیلنج کیا ہے اور یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اس ملک میں پدرشاہی نظام کتنا منظم اور غیر لچکدار ہے۔

بشکریہ بی بی سی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے