Baam-e-Jahan

جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدر پاکستان کو لکھے گئے خط سے متعلق ریفرنس خارج

پاکستان کی سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مِس کنڈکٹ کا ریفرنس خارج کر دیا ہے۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے اس ریفرنس کو نمٹاتے ہوئے کہا کہ اس ریفرنس میں ایسے ٹھوس شواہد نہیں ہیں جس کی بنیاد پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ان کے عہدے سے ہٹایا جائے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دو ریفرنس دائر ہوئے تھے ایک بیرون ممالک جائیداد کا ٹیکس گوشواروں کو ذکر نہ کرنا اور اور دوسرا اس صدارتی ریفرنس سے متعلق صدر مملکت کو خط لکھنا۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف دوسرے ریفرنس میں استدعا کی گئی تھی کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کی معلومات حاصل کرنے کے لیے صدر کو لکھے گئے خطوط ’میڈیا میں لیک ہونے سے غیر ضروری تنازع پیدا ہو گیا تھا۔‘

یاد رہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ایک صدارتی ریفرنس میں ان پر بیرون ملک اثاثوں کو انکم ٹیکس کے گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ صدر کی طرف سے بھجوائے گئے اس ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

جسٹس عیسیٰ کا موقف ہے کہ یہ جائیدادیں ان کی بیوی اور بچوں کے نام پر ہیں۔
اس ریفرنس کی خبریں میڈیا میں سامنے آنے کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ نے صدرِ مملکت کے نام خط میں اپنے خلاف ریفرنس دائر ہونے کی اطلاعات کی حقیقت بتانے کی درخواست کی تھی۔

صدر کے نام لکھے گئے ایک دوسرے خط میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا تھا کہ آیا وزیرِ اعظم عمران خان کے نزدیک اپنے خاندان والوں کے اثاثوں کی تفصیلات جمع کروانا لازم ہے۔

خطوط سے متعلق ریفرنس میں یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ خطوط میں استعمال کی گئی ’زبان اشتعال انگیز ہے، وزیر اعظم کو ہدف بنایا گیا اور انھیں غیر ضروری طور پر اس تنازع میں گھسیٹا گیا۔‘

پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے اس ریفرنس کو نمٹاتے ہوئے کہا کہ اس ریفرنس میں ایسے ٹھوس شواہد نہیں ہیں جس کی بنیاد پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ان کے عہدے سے ہٹایا جائے۔

اس ریفرنس کو خارج کرنے سے متعلق جاری ہونے والے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے صدر مملکت کو جو خط لکھے گئے تھے اس کے بارے میں سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن جسٹس عظمت سعید کو اس معاملے کا جائزہ لینے کے لیے کہا گیا تھا اور جن کی سفارش میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مس کنڈکٹ کا نوٹس جاری کیا گیا۔

اس فیصلے میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ملاقات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنے چیمبر میں بلایا اور انھیں بحثیت چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل موصول ہونے والے صدارتی ریفرنس کے بارے میں بتایا۔

اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس سے اس صدارتی ریفرنس کی کاپی دینے کی درخواست کی تاہم ان کی درخواست پر عمل درآمد نہ ہوا اور اُنھیں چیف جسٹس کے چیمبر میں ہی اس ریفرنس کو پڑھنے کے لیے دیا گیا جس میں سے اُنھوں نے نوٹس بھی لیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج کے کے آغا کے خلاف بیرون ممالک جائیدادوں سے متعلق صدارتی ریفرنس اپنی جگہ پر موجود ہیں اور اس بارے میں سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس آئندہ چند روز میں متوقع ہے۔

پاکستان بار کونسل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف دائر ریفرنس کے خلاف منگل کو سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کرے گی جس میں اعلیٰ عدلیہ کے ان ججز کے خلاف صدارتی ریفرنس کو ختم کرنے کی استدعا کی جائے گی۔

بشکریہ بی بی سی

اپنا تبصرہ بھیجیں