تحریر محمد حنیف
گزشتہ سال آج کے دن لاہور کا صحافی مدثر نارو کاغان میں دریا کی سیر کو گیا اور آج تک واپس نہیں آیا۔ خاندان والوں کو پہلے لگا کہ شاید پیر پھسل کر دریا میں گر گیا ہو۔
وہاں دریا بہت تیزی سے بہتا ہے اور ایسے حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ دریا چھان مارا لیکن کہیں نام و نشان نہیں ملا۔ دل میں یہ خیال بھی آیا کہ وہ بے روزگار تھا، شاید زندگی سے مایوس ہو کر جان دے دی ہو۔
لیکن مدثر کا چھ ماہ کا بچہ تھا جس سے وہ بہت پیار کرتا تھا اور فارغ ہونے کی وجہ سے زیادہ وقت اسی کے ساتھ گزارتا تھا۔ اس کے ہوتے ہوئے وہ کیسے اپنی جان دے سکتا تھا۔ ویسے بھی پیشہ ور صحافیوں پر بے روزگاری کے وقفے آتے رہتے ہیں، کام کرنے والے کو کام مل ہی جاتا ہے۔
نارو بڑے بڑے ٹی وی چینلوں پر اہم عہدوں پر رہ چکا تھا۔ ہو سکتا ہے صحافت پر آنے والے برے حالات سے مایوس ہو گیا ہو، لیکن تمام شواہد بتاتے ہیں کہ وہ زندگی سے مایوس نہیں تھا۔
پھر گھر والوں اور دوستوں کو اس سے بھی ڈراؤنا خیال آیا۔ ایک ایسا ڈراؤنا خیال جو اپنے ساتھ تھوڑی سی امید بھی لے کر آتا ہے کہ کہیں اسے اٹھا تو نہیں لیا گیا؟
کسی زمانے میں لوگ تاوان کے لیے اٹھائے جاتے تھے اور اب فیس بک پر ’ریاستِ مدینہ` کے خلاف باغیانہ باتیں کرتے ہوئے یا ریاستی اداروں کی بے ادبی کرنے پر اٹھا لیا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ ہم کیوں اٹھائیں گے کسی کو؟ ہم دنیا بھر کے حساس اداروں میں سب سے زیادہ حساس ہیں، ہم آپ کو اغواء کار نظر آتے ہیں؟
نارو کے فیس بک پیچ پر ایک نظر ڈالتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ بے ادب تھا، شاعری کرتا تھا، کڑھتا تھا، گستاخی کرتا تھا۔ وطن پرست سے زیادہ عوام دوست تھا۔ لیکن جو بھی تھا ایک سال پہلے نارو دریا کی سیر کو گیا اور واپس نہیں آیا۔
’مسنگ پرسنز` بن جانے کی ڈراؤنی امید کے ساتھ اس کے گھر والوں نے وہی کیا جو مسنگ ہو جانے والوں کے اہل خانہ کرتے رہے ہیں۔
پولیس میں رپورٹ کروائی گئی۔ اخبار میں خبر چھپوائی گئی۔ انسانی حقوق کے کمیشن کو خط لکھا گیا۔ مسنگ پرسنز کمیشن میں درخواست جمع کروائی گئی۔ اب مسنگ پرسنز کو ڈھونڈنے کا معیاری طریقہ پورا ہو گیا۔ مسنگ اب بھی مسنگ ہیں۔ اب کیا کریں؟
تجربہ کار لوگوں سے مشورہ کریں تو وہ بتائیں گے کہ صبر کریں۔ زیادہ شور مچائیں گے، جلوس نکالیں گے تو اٹھانے والے ناراض بھی ہو سکتے ہیں۔ مسنگ ہونے کا دورانیہ طویل تر ہو سکتا ہے۔ اٹھانے والے شاید یہ بھی سمجھنے لگیں کہ اتنا شور مچ رہا ہے، ہم نے یقیناً صحیح بندے ہر ہاتھ ڈالا ہے۔
نارو کے گھر والوں نے بھی یہ صائب مشورہ مانا اور قانونی چارہ جوئی میں لگے رہے۔ کمیشن کے سامنے ایک پیشی ہوئی۔ تاریخ پڑ گئی، دوسری ہوئی، پھر تاریخ پڑ گئی۔ حساس اداروں والے گھر پر آئے اور بچوں کی پرورش پر لیکچر دیا۔
’ہم نے تو نہیں اٹھایا، لیکن ایسے نوجوان چند مہینوں بعد واپس آ جاتے ہیں۔ اور جو آپ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ہمارا بچہ معصوم تھا، تو آپ کو کوئی پتہ نہیں کہ آپ کے یہ معصوم بچے فیس بک پر کیا گل کھلاتے پھرتے ہیں۔`
اس کے چند مہینوں بعد ایک معجزہ ہوا۔ کسی جاننے والے نے مسنگ پرسنز کے لیے بنائے گئے کسی حراستی مرکز میں نارو کو دیکھا، لیکن اس کے کئی مہینوں بعد سے کوئی خبر نہیں، کوئی پیشی نہیں، کوئی حساس مسافر تشفی دینے نہیں آیا۔
پچھلے کئی مہینوں میں مسنگ پرسنز کے بارے میں کچھ اچھی خبریں آئی ہیں۔ کئی سالوں سے غائب کچھ لوگ گھر پہنچے ہیں۔ لیکن نہ ان کی بتانے کی ہمت ہے اور نہ ہماری پوچھنے کی کہ بھائی اتنے سال سے کہاں غائب تھے۔
کچھ سال پہلے جب غائب ہونے والوں کی مسخ شدہ لاشیں مل رہی تھیں تو ایک مسنگ لڑکے کے رشتے داروں نے مجھے لوگوں سے پرے لے جا کر کہا کہ ان لوگوں کی قسمت اچھی ہے جنھیں لاش مل گئی۔ دفنا لیا اور قبر پر فاتحہ پڑھ کر گھر واپس چلے گئے۔ ہماری تو زندگی ان احتجاجی کیمپوں میں ہی گزر جائے گی کہ ہمارا بندہ پتہ نہیں ملے گا یا نہیں، زندہ ہے یا مر گیا۔
گذشتہ ہفتے پشاور میں مسنگ لوگوں کے حوالے سے ہائی کورٹ میں کیس کی پیشی تھی۔ کسی نے کہا کہ ان کے موکل کا بچہ لاپتہ افراد کے لیے بنائے گئے ایک حراستی مرکز میں تھا، اب وہاں سے بھی غائب ہو گیا ہے۔
دل سے دعا نکلی کہ یا اللہ، نارو جلد گھر واپس آ جائے۔ یا اگر ریاست کی بھلائی اسی میں ہے تو تھوڑے دن اور مسنگ رہ لے، لیکن ریاست کی حراست میں ہوتے ہوئے دوبارہ مسنگ نہ ہو جائے، وہ نارو جو تھوڑی دیر کے لیے دریا کی سیر کو گیا تھا۔
بشکریہ بی بی سی