Baam-e-Jahan

اے ڈبلیو پی کے کارکنوں کی رہائی اورجھوٹے مقدمات کو ختم کرنے کا مطالبہ


بام جہان رپورٹ

اسلام آباد: عوامی ورکرز پارٹی نے اپنے تین رہنماوں اور پروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن (پی آر ایس ایف) سے وابستہ ایک طالب علم کی فلفور رہائی اور ان پر بنائے گئے جھوٹے مقدمات جن میں "بغاوت” اور "تشدد پر اکسانے” بھی شامل ہیں کو فلفورواپس لیا جائے .

پولیس نے عوامی ورکرز پارٹی کے ڈپٹی سیکریٹری عصمت شاہجہان، عوامی ورکرز پارٹی پنجاب کے صدر عمار رشید، پارٹی کے دو سرگرم رکن نوفل سلیمی، سیف اللہ نصر، ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی کارکن ماریہ ملک، اور پی-آر- ایس- ایف کے رکن شاہ رکن عالم اور منیبہ کو 29 دیگر لوگوں جن میں ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ، پی-ٹی-ایم اور پختونخواء ملی عوامی پارٹی کے کارکنوں سمیت 29 افرد کواسلام آباد سے گرفتار کیا تھا-

وہ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف نیشنل پریس کلب کے سامنے ایک پرامن مظاہرہ کر رہے تھے.
پولیس نے بعد میں عصمت شاہجہان، محسن داوڑ، ماریہ ملک اور منیبہ کو رات گئے رہا کیا تھا.
لیکن عمار رشید، نوفل سلیمی، سیف اللہ نصر اور شاہ رکن عالم سمیت 23 گرفتار کارکنوں پر ریاست کے خلاف بغاوت کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کو جمعرات کی صبح جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے 15 روزہ جوڈیشل ریمانڈ دے کر اڈیالہ جیل بھیج دیا۔

اس سلسلے میں عوامی ورکرز پارٹی نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کا انعقاد نیشنل پریس کلب میں جمعرات کے روز ایک پریس کانفرنس کا ینعقاد کیا تھا تاکہ لوگوں کو حقائق سے اگاہ کیا جائے.

پریس کانفرنس سے ترقی پسند رینماوں سابق سینیٹر افراسیاب خٹک،سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر، سینیٹر عثمان کاکڑ اور عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل عصمت شاہجہان، مرکزی رہنماء ڈاکٹر فرزانہ باری، عوامی ورکرز پارٹی پینجاب کے صوبائی سیکریٹری اظلاعات طوبہ سید نے خطاب کیا اور اسلام اباد پولیس کی پڑھے لکھے نوجوان کارکنوں اور خواتین کے اوپر تشدد اور ریاستی جبر کی مزمت کیں۔


ان رہنماوں نے کہا کہ عمار رشید ، نوفیل سلیمی ، سیف اللہ نصر اور شاہ رکن عالم ایک نئی پڑھے لکھے نوجوان نسل کا حصہ ہیں۔ وہ پاکستان میں اس نوجوان نسل کا حصہ ہیں جو ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ’ کے سائے میں پروان چڑھے ہیں اور انہوں نے جمہوری اور ترقی پسندانہ نظریات سے وابست ہیں ، جنہوں نے تعصب اور طاقت کے ناجائز استعمال کے خلاف بات کی ہے .
مقررین نے خبردار کیا کہ اگر پاکستان کو سوچنے سمجھنے والے نوجوانوں کے لیے جیل بنا دیا گیا تو یہ نہ صرف حکمرانی کے فرسودہ نظام بلکہ خود ملک کے مستقبل کو سوالیہ نشان بنا دے گا۔

مقررین نے لاہور سے محسن ابدالی کے اغواء کی سخت مذمت اور اغواکاریوں کی بڑھتی ہوئی لہر کو مسترد کیا گیا۔
ان رہنماوں نے کہا کہ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ نوجوان نسل قیمتی اثاثہ ہے مگر دوسری طرف باشعور اور پڑھے لکھے لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جاتا ہے اور جیل میں ڈایل دیا جا رہا ہے۔
عصمت شاہ جہان نے کہا کہ کافی عرصے سے عوامی ورکرز پارٹی پر ریاستی جبرکا شکار ہے۔ ہم مظلوم لوگوں اور تنظیموں کے ساتھ ہمیشہ کھڑے ہوتے ہیں –
ان کا کہنا تھا کہ "ہم چار روز قبل منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف وہ پرامن احتجاج کر رہے تھے .

انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی اشتعال انگیز زبان استعمال نہیں ہونے دی گئی اور در حقیقت مظاہرین پر پولیس نے حملہ کیا۔ پولیس کےگرفتاریوں کے ویڈیو اس کی تصدیق کرتے ہیں وہ اس مظاہرے کو توڑنے اور پھر مظاہرین کو پولیس وین میں ڈالنے کی پہلے سےمنصوبہ بندی کی تھی۔ہمارے گرد خار دار تاریں بچھا دی گئیں، ہمارے کارکنان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کو گرفتار کیا گیا، چار گھنٹے تک سڑکوں پر گھماتے رہے کہ ان پر کیا کیس ڈالا جائے۔ ہم چھ لوگ نکل آئے لیکن باقیوں پر غداری اور تشدد پر اکسانے کا بے بنیاد مقدمہ بنایا گیا۔

”آئین عوام کے حقوق کی پاسداری کا امین ہے لیکن ریاست پاکستان نے آئین کو بھی بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔یہ لوگ سماج کا ضمیر ہیں اگر ضمیر مار دیں گے تو ملک کیسے چلے گا۔“

فرزانہ باری نے کہا کہ ریاست کو سمجھنا ہو گا کہ جس طرح ملک چلایا جا رہا ہے اس طرح نوجوان ملک نہیں چلنے دیں گے۔پڑھے لکھے نوجوانوں کے خلاف غداری کے مقدمات بنائے جا رہے ہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں۔

افراسیاب خٹک نے کہا کہ کہتے ہیں سیاست دان کرپٹ ہیں لیکن ان سے گلے بھی ملتے ہیں ڈیل بھی کرتے ہیں دوسری طرف نوجوان جو عوام کی خدمت پر یقین رکھتے ہیں انکے خلاف مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔میں لکھ کر دینا چاہتا ہوں کہ زبردستی کوئی حکومت نہیں چل سکتی،توپیں ،ٹینک،جہاز کچھ نہیں کر سکتے جب لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔یہ تاریخ ہے۔انسانی حقوق کا معاملہ اندرونی معاملہ نہیں ہوتا،آپ عالمی عدالت انصاف جا سکتے ہیں۔
آفراسیاسب خٹک کا کہنا تھا کہ اب تو اپوزیشن بھی اسٹبلشمنٹ کے کنٹرول میں ہیں. انھوں نے عوامی ورکرز پارٹی کو مظلوموں کے ستھ دینے پر خراج تحسین پیش کیا اور کہا کی عاے ڈبلہو پی عوام کے لئے واحد امید ہے رہ گئی ہے.
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ عوامی ورکرز پارٹی کی سیاست مظلوم تحریکوں کی حمایت کی سیاست ہے۔حالیہ واقعہ بھی انکی اسی سیاست کا حصہ ہے،انہوں نے دیکھا پی ٹی ایم پر ظلم ہو رہا ہے تو انہوں نے آواز اٹھائی۔

انہوں نے کہا اسوقت سیاسی جماعتیں اور وکلاء بھی بیک فٹ پر ہیں تو نوجوانوں نے فیصلہ کیا کہ ملک ایسے نہیں چلنے دینگے جیسے چلایا جا رہا ہے۔میں کہتا ہوں ان سے جنگ نہ لڑو،ان سے بات کرو۔آپ اپنے لوگوں سے بات کیوں نہیں کرتے،انہیں دھکے دے کر باہر کرنے کے بجائے ان سے مذاکرات کی داغ بیل ڈالو۔جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات ختم کیے جائیں۔شرکاء نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ جھوٹے بے بنیاد مقدمات کے خاتمے اور کارکنان کی رہائی تک احتجاج جاری رہے گا۔

اے ڈبلیو پی کے رہنماوں نے کہا ہے کہ ریاست کی عسکری اور اب قانون اور عدالتی اداروں اور حربوں کے زریعے ترقی پسند قوتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے- یہ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ موجودہ پاکستان میں ایک ‘جمہوری’ حکومت کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے۔
پریس کانفرنس کے شرکاء نے کہا کہ عملی طور پر تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد ترک کردی ہے.

عوامی ورکرز پارٹی نے قانون کی حکمرانی کی آڑ میں جاری ڈھونگ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا تے ہوئے عمار رشید، نوفل سلیمی، سیف اللہ نصر، شاہ رکن عالم اور بقیہ ۱۹ کارکنوں کو اڈیالہ جیل بھیجنے کی شدید مذمت کی ہے ۔
گزشتہ ۲۴ گھنٹوں میں نہ صرف سیشن کورٹ کے جج نےبِلاثبوت اور جھوٹ پر مبنی مقدمے کے تحت گرفتار کئے گئے ساتھیوں کی درخواست ِضمانت کو مسترد کیا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حکام کے حکم کی تعمیل میں جیل کے عملہ نے عمار، نوفل ، ناصر ، عالم سے ان کے اہل خانہ کو ملاقات کرنے کی اجازت سے محروم رکھا ہے۔گھنٹوں تک مسلسل انتظا ر کرنے کے بعد ملاقاتیوں کو واپس جانے کو کہا گیا۔

سالہا سال سے عوامی ورکرز پارٹی سیاسی قیدیوں ،کمزور طبقات، لاپتہ افراد اور ریاستی جبر کانشانہ بننے والے افراد کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتی رہی ہے۔آج ہم اور ہمارے ساتھی طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں کے روایتی غضب کا شکار ہیں جو خود کو تمام قوانین سے ماوراء سمجھتے ہیں ہم اپنی جدوجہد ہر صورت میں جاری رکھیں گے –
پارٹی کا کہنا ہے کہ "اس وقت میں ہم تمام جمہوری اور ترقی پسند قوتوں کو دعوت دیتے ہیں کہ ہمارے نوجوان رہنماؤں اور کارکنان کے لیے اپنی آواز بلند کریں۔اگر ہم آج ان کے لیے نہیں بولیں گےتو ہمارے پاس مستقبل کو محفوظ بنانے کا کوئی رستہ باقی نہیں بچے گا”۔

اے ڈبلیو پی اور اس سے وابستہ طلبا تنظیم کے رہنماؤں اور کارکنوں پر ریاست کے خلاف جرائم کا الزام عائد کیا جارہا ہے-ان کا واحد جرم پاکستان کے تمام قومیتوں، اور جبر کت شکار لوگوں خاص طور پر مظلوم اقوام ، خواتین ، مذہبی اقلیتوں اور محنت کش اور غریبوں اور جمہوری آزادیوں کے لئے اواز آٹھانا ہے۔

اے ڈبلیو پی کے رہنماؤں نے کہا کہ ان کے قید کارکنوں کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ تخلیقی اور تنقیدی سوچ رکھتے ہیں۔ وہ استاد، موسیقار ، مصنفین اور مفکرین ہیں جو اپنے معاشرے کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں اور اس کی بہتری اور سماج میں بنیادی تبدیلی کے لئے کوشاں ہیں۔ وہ تعلیمی نصاب میں لکھی گئی نفرتوں ، غلط خارجہ اور داخلی سیکوریٹی پالیسیوں کے خلاف اور کالج / یونیورسٹیوں ، میڈیا ، سیاست اور معاشرے میں اظہار رائے کی آزادی کےلئے بات کرتے ہیں۔
مزید برآں ، وہ یہ جانتے ہیں کہ پاکستان کا معا شرہ متنوع معاشرہ ہے لیکن یہاں تمام نسلی گروہوں، خواتین، مذہبی اقلیتوں کو منظم طور پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے: ان کا قصور یہ ہے کہ وہ پشتونوں کے ساتھ ساتھ بلوچ ، سندھی ، سرائیکی، گلگت بلتستان، کشمیری، ہزارہ اور دیگر برادریوں، خواتین ، لڑکیوں ، احمدیوں اور بہت سے دوسرے لوگوں کے لئے آواز بلند کرتے رہتے ہیں اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں-

پارٹی کے رہنماوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم غریبوں، کچی آبادیوں، بڑے بڑے ڈویلپمنٹ منصوبوں سے متاثر ہونے والے لوگوں ، نجکاری کا سامنا کرنے والے سرکاری اداروں کے کارکنوں کے حق میں متحرک اور سرگرم عمل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گرفتار نوجوان آنے والی نسلوں کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں جن کے زندگی کوجنگ، ماحولیاتی خرابی اور ایک استحصالی سرمایہ دارانہ معاشی نظام سے خطرہ ہے جو خالصتا منافع پر مبنی ہے۔ انہوں نے دوسرے نوجوانوں کا شعور اجاگر کیا تاکہ اجتماعی طور پر ہم ایک پرامن اور پائیدار مستقبل کی تشکیل کرسکیں۔
اے ڈبلیو پی کے رہنماؤں نے یہ واضح کیا کہ ان کی پارٹی جو بایاں بازو کی شاندار مزاحمتی روایات کا امین ہے نے ہمیشہ بلا خوف و امتیاز کےسیاسی کارکنوں کے اوپر ریاستی جبر اور طاقت کے ناجائز استعمال کے خلاف آواز آٹھا ئی ہے .

"ہم ایک ایسی پاکستانی ریاست اور سماج جو وفاقی، جمہوری اور اپنے تمام لوگوں کی فلاح و بہبود اور انصاف پر مبنی ہو کے قیام کے لئے پرعزم ہیں”
انھوں نے کہا کہیہ بات انتہائے اہم ہے کہ اس ملک کے حکمرانوں اور ریاست کو یہ سمجھنے کی ظرورت ہے کہ ایک پرامن ، ترقی پسند اور خوشحال پاکستان کی تعمیر کا دارومدار آج کے سیاسی باشعور نوجوانوں پر ہے ، اور اگر ان کے حقوق محفوظ نہیں ہیں تو اسسے پورے ملک کے مستقبل دائو پر لگ جایگا جس کے نتائج کی زمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوگی۔
اے ڈبلیو پی کے رہنماؤں نے ایک نوجوان طالب علم اور سوشل میڈیا کارکن محسن ابدالی کولاہور میں ان کے گھر سے اغواء کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیاا ور مطالبہ کیا کہ اس طرح کے ماورائے عدالت اغوا کےسلسلہ کو بند کرنا ہوگا اور تمام غائبکئے گئے نوجوانوں کو برامد کرکے ان کے خاندانوں سے ملانا چاہیے۔

زیر حراست چند کارکن کون ہیں؟

بی بی سی اردو نے گرفتار کارکنوں کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ سب اعلی تعلیم یافتہ نوجوان ہیں اور پاکستان میں ایک بنیادی تبدیلیاور سماجی انصاف کے لئے جدوجہد کرتے ہیں


محمد نوفل سلیمی

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے گریجویشن کرنے والے نوفل سلیمی اس وقت پولیس کی تحویل میں ہیں۔

ان کی بہن سندس سلیمی نے اپنے بھائی کی گرفتاری کے بعد اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر لکھا ’میرے بھائی نے گریجویشن کی تو اس کا نام ’ڈینز لسٹ‘ میں آیا۔ اس کے بعد اسے متحدہ عرب امارات کی کمپنی میں بہت اچھی نوکری ملی لیکن وہ اسے چھوڑ کر پاکستان واپس آیا اور اس نے سیکھنے کا سفر اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر شروع کیا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے نوفل کو برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سمیت دیگر اور یونیورسٹیوں میں داخلہ ملا۔‘

انھوں نے مزید لکھا ’میرے بھائی کے لیے آرام دہ زندگی کرئیر اور انفرادی کامیابی کافی نہیں تھی۔ وہ خاموشی سے ظلم وستم سہنے والے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتا تھا اور ان کے لیے آواز اٹھانا چاہتا تھا۔ اس کے یہی خیالات اس کی سیاست بن گئے۔‘

ان کی بہن نے اپنے بھائی کے سماجی کاموں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ’نوفل اسلام آباد کی کچی آبادیوں کو جبری بے دخل کرنے کے خلاف کھڑا ہوا۔ اس نے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک سکول بنایا اور اسے چلایا۔ اس نے خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور بچوں کی بات کی۔‘

انھوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا ’ہم نے کم عمری میں ہی اپنے والد کھو دیا تھا۔ تب سے ہی نوفل نے ایک اچھا بھائی اور بیٹا بن کر دکھایا ہے۔ میں اپنے بھائی کے لیے خوفزدہ ہوں لیکن مجھے اس کے ساتھ ساتھ فخر ہے نوفل میرا بھائی ہے۔ میں دعاگو ہوں کہ میرا بھائی اور اس کے تمام دوست جلد گھر واپس آ جائیں۔‘

نوفل کی گرفتاری پر ان کی والدہ راشدہ سلیمی نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا ’مجھے نوفل کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر اس انقلابی شخص کے لیے برا محسوس ہو رہا ہے جس کی اپنی سوچ ہے اور وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ریاست کے مفاہمتی بیانیے کے بجائے حق کی بات کرتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گرفتار ہونے والے تمام افراد نے کوئی غلط اقدام نہیں اٹھایا۔ وہ صرف پرامن احتجاج کر رہے تھے جو ان کو آئین پاکستان دیتا ہے۔‘

اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے راشدہ سلیمی نے کہا ’ریاست صرف نوجوانوں پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے کیونکہ وہ انقلاب کی بات کرتے ہیں، وہ تبدیلی کی بات کرتے ہیں، وہ اس بوسیدہ نظام اور معاشرے کو ٹھیک کرنے کی بات کرتے ہیں اور یہی ان کا جرم ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری جدوجہد جاری رہے گی اور مجھے یقین ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب ان نوجوانوں کی آواز سنی جائے گی جو تبدیلی اور انقلاب کی بات کرتے ہیں۔


عمار راشد
عمار راشد کو بھی ایک روز قبل اسلام آباد میں منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے مظاہرے سے گرفتار کیا گیا ہے۔

عمار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عوامی ورکرز پارٹی کی رکن طوبیٰ سید کا کہنا تھا کہ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک اکیڈمک ہیں اور بیشتر حکومتی اور پرائیویٹ اداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔
نھوں نے بتایا کہ عمار اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) میں بھی پڑھا چکے ہیں۔ ان کی وابستگی عوامی ورکرز پارٹی سے رہی ہے اور فی الحال وہ عوامی ورکرز پارٹی پنجاب کے صوبائی یونٹ کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمار نے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے اکنامکس میں بی ایس سی ڈگری حاصل کی۔ گریجویشن کے بعد انھوں نے برطانیہ کی سسیکس یونیورسٹی سے ڈویلپمنٹ اسٹڈیز میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ہے۔ عمار کو موسیقی کا بھی شوق ہے اور وہ باقاعدہ طور پر سیاسی تقریبات میں انقلابی گیت اور شاعری پیش کرتے ہیں۔

طوبیٰ سید نے ان کے سماجی کاموں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ عمار نے سستی رہائش کے حق کے لیے آواز اٹھائی اور حکومت کی جانب سے غیر قانونی کچی بستیوں کی بے دخلی کے خلاف سیاسی اور قانونی مزاحمت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ عمار نے زیادہ تر کام تعلیم اور صحت کی اصلاحات، عوامی پالیسی، معیشت، ذیلی قومی حکمرانی، ملکی ترقی اور ٹیکس اصلاحات سے متعلق موضوعات پر تحقیق و تدریسی کام کیا ہے۔

سیف اللہ نصر

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیف اللہ نصر شعبیہ تدریس سے وابستہ ہیں. انہوں نے ایف سی کالج لاہور سے گریجویشن کے بعدسنٹرل یوروپین یونیورسٹی ہنگری سے علم بشریات میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے. ان کی تحقیق کا موضوع پوسٹ کالونیل بلوچستان میں قبائیلی نظام کا ارقاء اور ریست کے درمیان تعلق ہئ. وہ 2017 سے عوامی ورکرز پارٹی سے وابستہ ہیں.

محسن ابدالی

لاہور سے تعلق رکھنے والے محسن ابدالی ایم فل ایگریکلچر کے طالب علم ہیں اور پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔

محسن کے ساتھ پڑھنے والے ساتھیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ تعلیمی میدان میں محسن کا شمار ذہین طالب علموں میں کیا جاتا ہے۔

پڑھائی کے ساتھ ساتھ محسن سماجی کارکن کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ محسن ماحولیاتی تبدیلی مارچ اور سٹوڈنٹ مارچ کے منتظم بھی رہ چکے ہیں جبکہ محسن نے ایگرکلچر اور ماحولیات پر کام کرنے کے لیے سوسائیٹیز بھی قائم پر رکھی ہیں۔

محسن کے بھائی عمر خان نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے الزام لگایا ’میرے بھائی کو اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ انھوں نے لاہور کے لبرٹی چوک میں منظور پشتین کے گرفتاری کے خلاف ہونے والے احتجاج میں شرکت کی تھی جبکہ ان کا نام کسی ایف آئی آر میں نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس نے رات ساڑھے تین بجے ہمارے گھر پر دستک دی اور والد کے پوچھنے پر سوال کیا کہ کیا محسن ابدالی آپ کا بیٹا ہے؟ میرے والد کی جانب سے جواب پر پولیس نے محسن ابدالی کو باہر بلانے کا کہا اور جیسے ہی میرا بھائی گھر کے دروازے پر آیا تو پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔‘

انھوں نے پولیس پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے محسن ابدالی کی گرفتاری کے بعد ہمارے گھر میں بنا سرچ وارنٹ کے زبردستی گھس کر تلاشی لی، گھر میں خواتین کی موجودگی کا بتانے کے باوجود پولیس اہلکاروں نے ہماری بات نہ سنی اور محسن کا موبائل اور لیپ ٹاپ بھی قبضے میں لے کر اپنے ساتھ لے گئے۔‘

محسن کے بھائی عمر خان کا کہنا ہے ’ میرے والد کے پوچھنے پر کہ آپ میرے بیٹے کو کہاں لے جا رہے ہیں، پولیس اہلکاروں نے انھیں دھکے دیے اور ان کا بھی موبائل چھین لیا۔‘

عمر کا کہنا ہے کہ محسن کو حراست میں لے جانے والے کچھ افراد پولیس کی وردی میں تھے جبکہ باقی سادہ لباس میں تھے اور ایک شخص کے علاوہ تمام نے چہروں پر نقاب کیا ہوا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں