Baam-e-Jahan

رقص عورت اور چترالی امن و امان

زیب قرطاس

تحریر: شیر جہان ساحل

پچھلے دنوں ایک ویڈیو سامنے آگئی جس میں ایک معصوم بچی جو تقریباً سات آٹھ سال کی ہو گی رقص کر رہی تھی اور بہت ہی پر رونق محفل تھی۔ اسے جب شئیر کیا گیا تو چترالی ثقافت کے ٹھیکیداروں نے آسمان سر پہ اٹھایا اور ساتھ ٹھیکیداراں اسلام بھی کود پڑے کہ مذہبی جذبات کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ ثقافتی ٹھیکیداروں کی سربراہی کرتے ہوئے ہمارے ایک محترم جن کے پاس ادب کا ٹھیکہ بھی ہے نے ایک مضمون لکھ ڈالا جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اس طرح کی رقص سے چترال کا امن خراب ہو سکتا ہے۔ ہم قربان جائیں اس طرح کی امن وامان پہ۔

دراصل بات یہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ تبدیلی خیالات سے آتی ہے حالات سے نہیں۔ اسی لئے وہ لوگ جن کے ذہنوں میں برداشت کی جگہ نفرت و مایوسی بھری ہوئی ہو تو انہیں رقص کجا بلکہ اپنے سائے سے بھی ڈر لگنے لگتی ہے۔ دوسری بات عورت کی ہے، آخر عورت کے رقص پہ انہیں تکلیف کیوں ہے؟ تو جاننا ہو گا کہ یہ تکلیف بہت پرانی ہے اور اس تکلیف کے تاریخ پہ طائرانہ اور حقیقت پسندانہ نظر دوڑانے سے ہی اصل حقائق سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔

عورت سے نفرت اور اسے دباؤ میں رکھنے کی روایت ایک پسماندہ ذہن کی پیداوار ہے اور انسانی معاشرے کی آبادکاری کے کچھ سال بعد اور جاگیردارانہ سماج کے عروج کےساتھ بہت مضبوط ہوگئی. جاگیردارانہ سماج نے کلیساء اور منبر کے زریعے عورت کو نشان عبرت بنانے کے لئے ان پہ طرح طرح کی پابندیاں عائد کر دی گئیں.بادشاہوں اور امراء نے اسے محض اپنی ہوس کی تسکین کے لیئے لونڈیوں کے طور پر استعمال کیا. نفرت کا یہ سلسلہ چلتے چلتے اس نہج پر پہنچا کہ وجود زن ہی خطرے میں پڑ گئی اور اس مردار فرسودہ ذہن نے عورت کو زندہ دفنانے کا سلسلہ شروع کیا .
سرمایہ دارانہ سماج میں بھی عورت کو بطور ہتیھار استعمال کیا گیا.
جہالت کی تاریکی میں غرق دنیا میں روشنی کی ایک جھلک کا ظہور ہوا جسے دنیا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے جانتی ہے۔ اس ہستی نے سب سے پہلے عورت کے وجود کو بحال کروایا اور لڑکی کی پیدائش کو خدا کی رحمت قرار دیا۔ مگر آج ساڑھے چودہ سو سال ہونے کو ہیں مگر یہ ذہنیت آج پھر سے سر اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ عورت کو دبایا جائےاور اس کے احساسات کو دفنایا جائے۔
یہ میرا دعویٰ ہے کہ اگر عورت کو دباؤ میں رکھ کر اس ذہنیت کو پروان چڑھایا گیا تو یہ پھر سے عورت کو زندہ دفنانے کی ضد پہ اتر آئے گا جو ہم سب کے لئے ایک چیلنج بن جائے گی۔ اس لئے ان تمام روشن خیال فرزندان اسلام سے التجا ہے کہ خدارا آگے بڑھیں اس فرسودہ مردار ذہنوں کو جو تھوڑی سی مقدار میں ہیں کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ عورت کو انسان کا درجہ دلا کر اسے آزاد زندگی گذارنے کا حق دے سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے