بیورو رپورٹ
گلگت: گلگت بلتستان بچاو تحریک کے رہنماوں نے مطالبہ کیا ہے کہ گلگت-اسکردو روڈ کو فلفور کھولا جائے اور مسافرون کو ان کے گھروں تک پہچانے کا بندوبست کیا جائے.
تحریک کے مرکزی رہنماء احسان علی ایڈووکیٹ نے ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہان کے نمایندے سے بات کرتے ہوئے کہا "کہ گزشتہ تین دنوں سے سکردو روڑ شینگوس کے مقام پہ تودہ گرنے سے بند ھے جس کی وجہ سے بلتستان کے ہزاروں مسافر جن میں زیادہ تر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلباء، خواتیں اور بچے ہیں بھوک اور پیاس سے بے حال ویرانے میں کھلے آسمان تلے سخت پریشانی اور ازیت سے دوچار ہیں. مگر نامعلوم وجوہ کی بنا پر روڑ کا ٹھیکہ لینے والی کمپنی فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن (FWO) اس کو واگزار نہیں کر رہی ھے.”
انھوں نے کہا کہ جی بی حکومت، انتظامیہ اور FWO حکام سب کو پہلے سے معلوم تھا کہ راولپنڈی اور دیگر شہروں سے ہزاروں کی تعداد میں طلباء، خواتیں اور بچے بسوں کے ذریعے بلتستان کا رخ کر رہے ہیں ان کیلئے حکومت کی طرف سے خصوصی انتظامات کرنے اور روڑ کوصاف رکھنے کے بجائے جان بوجھ کر شینگوس جیسے جگہ پہ بند رکھنا اور بار بار مطالبات کے باوجود تودہ نہ ہٹانا سمجھ ست بالاتر ھے .
ترقی پسند رہنماء نے سوال کیا کہ "کیا حکومت اور ایف ڈبلیو او حکام راستے میں پھنسے طالب علموں سے کوئی بڑا احتجاج کروانا چاہتے ہیں؟
کیا تعمیراتی کمپنی کے اعلیٰ حکام بلتستان کے باشعور طلباء کو سکردو روڈ کی ناقص تعمیر کے خلاف کی جانے والی جائز تنقید پہ سزا دینا چاہتے ہیں؟”
ایڈووکیٹ احسان علی نے وفاقی اور جی بی دونوں حکومتوںکو خبردار کیا کہ اس سے پہلے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ھوتین دنوں سے بند روڈ کو فوراً کھولنے کا انتظام کرے اور FWO کے متعلقہ نااہل حکام کے خلاف فوری قانونی کاروائی کی جائے.
پاکستان کےمختلیف شہروں میں تعلیمی ادارے اور ان سے ملحقہ ہاسٹیلوں کو کرونا وائرس کے پھیلنے سے روکنے کے لئے بند کر دیا گیا. جس کے نتیجے میں ان تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم اور ہاسٹلوں میں رہائش پذیر سینکڑوں طلباء و طالبات بسوں اور ویگنوں کے ذریعے اپنے علاقوں کی جانب رخ کر رہے ہیں. ان میں سے بہت سارے کئی دنوں تک راولپنڈی میں بسوں کے اڈووں میں ٹرانسپورٹ نہ ملنے اور زیادہ کرایہ طلب کرنے کی وجہ سے پھنسے رہے. ان طلباء کوآل بلتستان موومینٹ اور بلتستان اسٹوڈینٹس فیڈریشن و دیگر مخیر لوگوں نے بسوں اور ویگنوں کا انتظام کرکے روانہ کیا.کئی دنوں کی خواری کے بعد جب وہ شنگوس کے مقام پر پہنچے تو سڑک کو بند پایا.
اسکردو کے ڈپٹی کمشنر خرم پروہز نے اپنے ٹویٹر اکاوئنٹ پہ ایک میسیج میں بتایا ہے کہ پہاڑی تودہ گرنے کے باعث شنگوس میں گلگت-اسکردو روڈ پچھلے 2 دن سے بند ہے، جہاں سینکڑوں کی تعداد میں مسافر پھنسے ہوئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مسافروں کے لیے خوراک سمیت بنیادی انسانی ضروریات کا مسئلہ کافی سنگین ہورہا ہے۔
مسافروں کے مطابق "گلگت انتظامیہ نے اپنے ضلعی حدود (شاٹوٹ) میں موجود ہوٹلوں اور دکانوں کو بند کروا کے مسافروں کو سکردو کے حدود میں دھکیل دیا ہے، ان ہوٹلوں اور دُکانوں سے مسافروں کی تھوڑی بہت ضروریات پوری ہورہی تھی ۔ مگر اب وہاں بند دکانوں اور ہوٹلوں کے سامنے گلگت پولیس کا پہرہ لگا ہوا ہے ۔ تاکہ مسافر ان ہوٹلوں اور دکانوں میں جمع نہ ہوجائے۔ پھنسے ہوئے مسافروں میں بڑی تعداد میں طلباء سمیت خواتین ، بچے اور عمر رسیدہ افراد شامل ہیں جنہیں اس بے آب و گیاہ مقام پر رفع حاجت کی پریشانی سمیت دیگر ناقابل بیاں مشکلات کا سامنا ہے۔
"ایک طرف علاقے میں کورونا وباء کے باعث ہیلتھ ایمرجنسی کے تحت لوگوں کے ہجوم پر پابندی ہے مگر روڈ بلاک کے مقام میں ہرعمر کے سینکڑوں افراد دو دنوں سے محصور ہیں۔،،
سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ وہاں تفتان سے براہ راست سکردو لائے جانے والے زائرین کی بس بھی پہنچی ہوئی ہے جس سے کورونا وائرس کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
لہذا فوری طور پر ان مسافروں کو وہاں سے نکالنے کے انتظامات انتہائی ناگزیر ہے اور اگر روڈ کی بحالی میں مزید وقت لگنے کی صورت میں انہیں وہاں خوراک اور طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے ریسکیو آپریشن کی ضرورت ہوگی ۔