وہ ایک طبیب، نفیس انسان، ریسلنگ کے پرستار، اور مسیحا تھے
تحریر: ریاض اکبر
سوشل میڈیا نوٹیفیکیشنز کے ایک طوفان نے آج صبح جگا کر ڈاکٹر مالک اشدر کی شہادت کی خبر سنا دی۔ میں اِس وقت دنیا کے الٹےسائیڈ پر ہوں، اس لیے مجھے پوری خبر کبھی نہیں ملتی ہے اور جو ملتی بھی ہے وہ اُلٹے ٹائیم پر ملتی ہے۔ مجھے یہ خبر زور سے اِس لئےبھی لگی کہ مجھے ڈاکٹر صاحب کو کرونا ہونے کا معلوم نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب ایک عظیم انسان تھے اور ان کی زندگی کی کہانی قابلِ بیان ہے۔ کچھ باتیں، یادیں پیشِ خدمت ہیں۔
ایک طبیب
ڈاکٹر صاحب نگر کے گاوں سمائر کے نمایاں ترین طبیب بلکہ اکلوتے طبیب تھے۔ گو کہ وہ صرف ایک اسسٹینٹ تھے لیکن گاوں والے ان سے فزیشن، سرجن، اور دندان سازی سبھی کام لیتے تھے، اور وہ بخوشی خدمات پیش کرتے تھے ۔ وہ گاوں کی تاریخ کے طویل ترین اور تنہا طبیب تھے جن کو ڈاکٹر کی مراعات حاصل نہیں تھیں، لیکن ذمہ داری بھرپور ڈاکٹروں والی تھی۔ حکومت نےاُن کواسسٹنٹ یا ٹکنیشن مقرر کیا تھا، لیکن وہ عملاً گاوں کے طبیبِ اعلٰی تھے۔ مشکل کام سے جی نہیں چراتے تھے اسی لیے جب کرونا کےمتاثرین علاج کیلیئے اُن کے پاس پہنچے تو انہوں نے بلا جھجک علاج شروع کر دیا۔ اُن کو پتہ تھا کہ بغیر حفاظتی آلات کے علاج کرناخطرناک ہو سکتا ہے، پھر بھی انہوں نے اپنی زندگی پر فرض کو فوقیت دی۔
ایک نفیس شخصیت
وہ اپنے چہرے پر ہمیشہ اطمینان اور دھیمی مسکراہٹ سجائے رکھتے تھے۔ عاجزی میں رچے بسے رہتے تھے۔ بہت تھوڑے لوگوں کو میرے گاؤں میں ایسا احترام اور محبت نصیب ہوا ہے جیسا اُن کو ملا تھا۔ وہ ہمہ وقت خدمت کیلئے تیار رہتے تھے۔ سخت موسم،تھکاوٹ یا اور کوئی بہانہ ان کے کام میں آڑے نہیں آتے تھے۔ ذاتی اور سرکاری وقت سے بھی آزاد تھے۔ ہر وقت کام کرتے تھے۔
دنیا کی عظیم ترین اور مشکل ترین قربانی جان کی ہوتی ہے، اور جس لمحے اُنہوں نے کرونا زدہ مریضوں کے علاج کا فیصلہ کیا تو وہ اپنےدل میں یہ مشکل فیصلہ کر بیٹھے تھے کہ فرض کی قربان گاہ میں وہ اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ ممکن ہے انہیں خوف بھی آیاہو، لیکن وہ خوف کو مات دے کر اپنا فرض ادا کرتے رہے۔
اگر فانی انسان کے بس میں یہ ہوتا کہ وہ اپنی موت کا نظارہ کر سکتا تو ڈاکٹر صاحب اپنی مغموم قوم کا خراجِ تحسین دیکھ کر اپنی جان دینے کے فیصلہ پر فخر کرتے۔ اور اگر اپنا طریقہ موت انسان چُن سکتا تو ڈاکٹر صاحب ایسی ہی کوئی موت چنتے
ریسلنگ کے پرستار
ڈاکٹر صاحب کشتی کے بڑے پرستار تھے۔ مجھے یاد ہے وہ سمائر کے واحد TV والے ہوٹل کے پہلے چند صفوں میں بیٹھ کرمکمل توجہ اور اشتیاق سے ریسلنگ دیکھتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا سیٹ کوئی نہ کوئی سنبھال کے رکھتا تھا۔ اُن کا جنون کسی طرح سےبھی اُن شائقین سے کم نہیں تھا جو کہ لائیو سٹیڈیم میں دیکھتے ہوتے ہیں۔ ُان کا یہ حال دیدنی ہوتا تھا۔ ہمیں کم عُمری میں یہ تھوڑا سا عجیب بھی لگتا تھا کہ بڑے بھی کسی چیز سے اتنا لگاؤ رکھ سکتے ہیں۔
پچھلے سال میری ٹیکسی امریکی ریاست لوزیانا کے شہر نیو آرلینز میں مرسیڈیز بنز سپر ڈوم (جہاں اکثر ریسلنگ کے مقابلے ہوتے ہیں) کے پاس سے گزری تو میرا خیال مجھے سیدھے میرے گاؤں کے اُس ہوٹل میں لے گیا اور مجھے مرحوم ڈاکٹر اور دوسرے پرستار بےاختیار یاد آگئے۔ مجھے ان کے پسندیدہ ریسلر یاد نہیں، اگر آپ میں سے کسی کو یاد ہوں تو براہِ مہربانی کمنٹس میں لکھ دیں تاکہ سب ملکر ڈاکٹر صاحب کو یاد کرسکیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ڈاکٹر صاحب کا زندگی میں اس کے علاوہ کوئی اور مشغلہ نہیں تھا۔ کام کی تھکاوٹ ایسے ہی نکالتے تھے۔
ہجرت
ڈاکٹر صاحب کو ایک انوکھا اعزاز یہ بھی حاصل تھا کہ وہ نگر کے اندر ایک گاوں سے دوسرے گاوں ہجرت کر گئے تھے۔ وہ ہوپر جیسےسیاحتی جنت میں پیدا ہوئےتھے۔ پلے بھڑے وہیں، لیکن سمائر کو اپنا مستقل گھر بنایا۔ نگر میں اندرونی ہجرت کی بہت کم مثالیں ہیں،اور وہ اُن میں سے ایک تھے۔ سمائر کو یہ اعزاز بخشنے پر سمائر کے شفیق اور شکر گزار لوگوں نے ڈاکٹر صاحب سے بے پناہ محبت کی اور عزت بخشا۔ اگر وہ آگے پیچھے کہیں جاتے تو سمائر اُن کے بغیر نامکمل نظر آتا تھا۔ اب ایک عرصے تک سمائر ایک مالک اشدر کامنتظر رہے گا۔
سمائر کے ہر شخص کے ہاں ڈاکٹر صاحب سے منسلک کوئی نہ کوئی یاد، ذاتی کہانی ضرور ہوگا۔ وہ معاشرے پر اثر رکھنے والے قد آور شخصیت تھے ۔ اُن سے وابستہ میری بھی ایک یاد ایک کہانی ہے۔ بلکہ اس تحریر کا مقصد ہی یہی ہے کہ اُس کہانی کی نسبت سے اُن کی زندگی کے کچھ پہلو سامنے لاؤں۔
میرا مسیحا
سنہ ۱۹۹۹ء کی ماہِ رمضان میں ایک دن اچانک پیٹ میں شدید درد ہوا۔ گھر میں والد محترم نہیں تھے، اور میں ہی سب سے بڑا تھا۔ کسی سے کہلوایا تو ڈاکٹر صاحب گھر پہنچ گئے۔ ڈرپ لگائی، دوائیاں دیں۔ لیکن ایک دو دن بعد بھی درد کم نہیں ہوا تو وہ خود مجھے علی آبادلے کر گئے، جہاں ڈاکٹر صاحب نے فوراً گلگت جانے کا حکم صادر فرمایا۔ تب تک افطار کا وقت ہو چکا تھا، اور ہم گلگت کی طرف روانہ ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب پھر سے اپنا سب کام چھوڑ کر میرے ساتھ گلگت جانے پر تیار ہو گئے۔ کافی تاکید کے بعد اس بات پروہ امادہ ہو گئے کہ میرے والد گلگت میں ہیں اس لئے وہ اپنے گھر چلے جائیں۔ اب وہ مرتضیٰ آباد سے سمائر پیدل روانہ ہوئے۔ یہ سردیوں کا موسم تھا اور اُس دن خون جمانے دینے والی سردی تھی، اوپر سے روزہ، افطار کا وقت۔ وہ زمانہ بھی کم گاڑیوں کا تھا اوروقت بھی ایسا تھا کہ اُن کو وہاں سے سمائر تک گاڑی نہیں ملی ہوگی۔ میں نے کبھی اُن سے پوچھا نہیں کہ وہ اُس رات کیسے گھر پہنچے۔ بلکہ مجھے کبھی یہ خیال آیا ہی نہیں۔ آج صبح خبر ملی تو میں اُن کے بارے میں سوچنے لگا اور ابھی تک سوچ رہا ہوں۔ ڈاکٹرصاحب نے اس کام کاکبھی کوئی بِل نہیں بھیجا، اور نہ ہی کبھی اس احسان کا یاد دلایا۔ مجھے لگتا ہے وہ اس واقعے کو اُسی دن ہی بھول بھی گئے ہونگے۔
خیر اگلے دن میرا ایمرجنسی اپنکڈیکس کا آپریشن ہوا، ورنہ پتہ نہیں کیا ہوتا۔
اس واقعے کو اکیس سال گزر گئے ہیں۔ اس عرصے میں جب بھی ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوتی تھی تو عجیب احترام، عزت اورشکرانے کے جذبات میری وجود سے اُن کیلئے چھلکتے تھے۔ مجھے پتہ ہے کہ میرے کہے بغیر اُن کو معلوم ہوتا تھا کہ میں اُس خدمت کونہیں بھولا ہوں اور نہ کبھی بھولوں گا۔
ایلیبیت سے محبت
سنا ہے ڈاکٹر صاحب کو آلِ محمد کے شان میں قصیدے بہت بھاتے تھے۔ تیرہ رجب سمائر میں خصوصی انداز میں منایا جاتا ہے،اور مولا علؑی کے شان میں بھرپور مدح سرائی ہوتی ہے اور ڈاکٹر صاحب اس پر جھوم اٹھتے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اُن کے مولا آج فناکے اُس پار اُن کا اُسی والہانہ انداز میں استقبال کیلے آئے ہونگے۔
الوداع ڈاکٹر صاحب
ریاض اکبر کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع نگر سے ہے۔ وہ اس وقت امریکہ میں فلبرائیٹ اسکالر شپ پر زیر تعلیم ہیں