درجنوں کورونا مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، وائی ڈی اے کا عالمی وباء کے خلاف صف اول میں لڑنے والے ہیلتھ ورکروں کو خراج تحسین
بام جہان رپورٹ
اس وقت پوری دنیا جس وبا اور اس کے نتیجے میں بحران سے دوچار ہیں اس میں سب کی آخری امیدیں اور نظریں سائنسدانوں کی طرف لگی ہویئں ہیں کہ کب ویکین تیار ہو اور لوگوں کو کورونا وائرس سے بچا سکے۔ دنیا بھر کے سائینسدان دن رات سرگرم عمل ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ اگلے ڈیڑھ سال تک ویکسین تیار ہوگا۔ لیکن جب تک ویکسین یا علاج کے لئے دوا تیار نہیں ہوتے ہیں اس وقت تک جس پیشے کی طرف لوگوں کی نظریں جاتی ہیں وہ شعبئہ طب اور اس سے وابستہ ماہرین و کارکنوں ہیں۔ اس پیشے کی عظمت اور اہمیت گزشتہ چھ مہنوں میں اجاگر ہوئی ہے اور علمہ سطح پر اس کا اعتراف کیا گیا ہے۔ ڈاکٹرز، نرسز، اور دیگر ہیلتھ ورکرز اپنی زندگی کی قیمت پر لاکھوں انسانوں کی زندگی بچانے کے لئے دن رات خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ چاہے وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک۔
ترقی یافتہ ملکوں میں اگرچہ اس پیشہ سے وابستہ لوگوں کی اہمیت کورونا سے پہلے بھی تھی لیکن اس عالمی وباء کے دوران ان کی اہمیت اور بڑھ گیا ہے. چین اور دیگر ملکوں نے ان کی خدمات کے اعتراف میں ایک دن ان کے نام کیا اور ان ملکوں کے فوجیوں نے ڈاکٹروں، پیرا میڈیکل کارکنوں کو سلامی پیش کیا۔
لیکن پاکستانی معاشرہ جہاں کا اوا کا اوا ہی بگڑا ہوا ہے اور الٹی گنگا بہتی ہے، میں اس پیشہ سے وابستہ لوگوں کی عزت تو درکنار ان کو آئے دن لوگ حراسان کرتے ہیں اور تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ خواء وہ پاکستان کا کوئی شہر ہو یا گلگت بلتستان آئے روز ہسپتالوں پہ حملہ اور ڈاکٹروں اور نرسوں پر تشدد اور بے عزتی اب ایک معمول بن گیا ہے ۔ آج ہی کی بات ہے کراچی کے سب سے بڑے اور پرانے سول ہسپتال میں دو درجن سے زائد لوگوں نے گھس کر توڑ پھوڑ کیا اور ہسپتال کے عملہ پر تشدد کیا۔ اس دوران نہ تو وہاں پولیس نظر آئی اور نہ رینجرز۔ شر پسند لوگ آرام سے توڑ پھوڑ کرکے ایک ایمبو لینس میں بیٹھ کر چلے گئے۔ گزشتہ دنوں گلگت کے سب سے بڑے پبلک ہسپتال میں بھی دو دفعہ اس قسم کے ناخوشگوار واقعات پیش آئے. جب کورونا کے دو مریضوں کی موت کے بعد ان کے لواحقین نے صوبائی ہیڈ کوارٹر ز ہسپتال میں گھس آئے اور عملہ کو تشدد کا نشانہ بنایااور بیش قیمت آلات، سامان، فرنیچر، کھڑکیوں کے شیشے اور دروازے توڑ ڈالے۔
ان واقعات کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یا تو ان ہسپتالوں میں اس قسم کے واقعات کے موقع پر سرے سے کوئے سیکورٹی گارڈز ، پولیس یا رینجرز کے سپاہی موجود ہی نہیں ہوتے ہیں’ یا غائب ہو جاتے ہیں یا اتنے کم ہوتے ہیں کہ وہ بلوہ کرنے والوں کو روکنے میں بے بس نظر آتے ہیں۔
پولیس اور دیگر سیکورٹی اہلکاروں کا رویہ بھی اس معزز پیشہ سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے نوجوانوں سے غیر مناسب ہوتاہے جیسا کہ کوئٹہ، لاہور، ملتان نشتر ہسپتال اور گلگت بلتستان میں دیکھنے میں آیا۔
ان نامناسب رویوں اور نا انصافیوں کے باوجود صحت کے کارکن پوری ذمہ داری سے اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔ اسی بے سروسامانی کے عالم میں تقریباً 21 ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر کارکن شہید ہو چکے ہیں۔ جن میں سے دو گلگت بلتستان میں سب سے پہلے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا.
ڈاکٹر اسامہ ریاض پہلا شہید ڈاکٹر ہے جس نے اس وبا کے خلاف صف اول میں لوگوں کی جان بچاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے ۔ان کے بعد ایکسرے ٹیکنیشن مالک اشدر نے جام شہادت نوش کیا ۔
ینگ ڈاکٹرز ایسو سی ایشن کے ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اب تک گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے سات ڈاکٹروں میں کرونا وائرس کی رصدیق ہو چکی ہے. جن میں سے پانچ ڈاکٹروں کا پی سی آر اور دو کا اینٹی باڈی ٹیسٹ مُثبت نکلا تھا۔
گلگت بلتستان کی بیٹی گائناکالوجسٹ ڈاکٹر ثروت جو پمز ہسپتال اسلام اباد میں خدمات سرانجام دے رہی تھی، کرونا سے مُتاثر ہوئی ہیں۔
وائی ڈی اے جی بی کے صدر ڈاکٹر اعجاز ایوب کے مطابق "جس وقت نگر میں کرونا وباء تیزی سے پھیل رہا تھا اُس وقت ڈاکٹر سرتاج رضوی سول ہسپتال اسکندر آباد نگر میں ایم ایس تعینات ہوئے اور دن رات کرونا کے خلاف برسرپیکار رہے۔
وہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نگر ڈاکٹر نزہت کے شانہ نشانہ خدمات سر انجام دیتے رہے اور ڈاکٹروں اور طبی عملے کو مُنظم کرتے ہوئے دن رات انتھک کوششوں سے نگر میں کرونا وبا کو کنٹرول کیا۔ اسی دوران وہ خود کرونا کا شکار ہوئے اور پچھلے دو ہفتوں سے آئسولیشن میں ہیں۔
ڈاکٹر اعجاز کے مطابق گلگت بلتستان میں دوران ڈیوٹی کرونا کا شکار ہونے والے ڈاکٹروں میں ڈاکٹر فاضل میڈیکل اسپیشلسٹ ترجمان وائی ڈی اے بھی شامل ہیں، جنہوں نے شروع دن سے ہی ہر اوّل دستے کا کردار ادا کیا تھا۔ ابتدا میں اُنہوں نے مُحّمد آباد کرونا آئسولیشن ہسپتال میں خدمات سرانجام دی اور بعد ازاں وہ نگر میں بھی قرنطینہ سنٹرز میں ڈیوٹی دیتے رہے۔ وہ گُزشتہ دس دن سے آئسولیشن میں ہیں. اب اُن کی طبیعت قدرے بہتر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کرونا کے خلاف صف اوّل کے فرائض سرانجام دینے والوں میں وائی ڈی اے گلگت بلتستان صوبائی ہیڈ کوارٹرز (پی ایچ کیو) ہسپتال کے صدر ڈاکٹر ظہیر کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں. وہ ایمرجنسی ڈیوٹی پر معمور تھے اور رات دن سینکڑوں مریضوں کا علاج کرتے کرتے خُود اس موزی مرض کا شکار ہوئے۔ وہ بھی گُزشتہ ایک ہفتے بیمار رہنے کے بعد شفایاب ہو چُکے ہیں۔
ڈاکٹر ظہیر کی خاندان کے چار افراد بھی اس مرض کا شکار ہوئے تھے جو اس وقت بھی زیر علاج ہیں۔
ان کے علاوہ گلگت بلتستان کے فرزند ڈاکٹر امتیاز میڈیکل اسپیشلسٹ جو کہ پولی کلینک ہسپتال اسلام آباد میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران پچھلے ماہ کرونا کی وجہ سے بیمار ہوئے تھے، اب مُکمل طور پر شفایاب ہو چُکے ہیں۔ ڈاکٹر یعقوب جو گلگت بلتستان میں کئی دہائیوں تک خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائر ہوئے تھے اور ان دنوں بھی وہ اپنے کلینک پر مریضوں کا علاج کرتے تھے اس دوران اُن کو یہ مرض لاحق ہوا۔ وہ مُحّمد آباد ہسپتال دنیور میں اس وقت زیر علاج ہیں ۔
اُن کے گھر کے چار افراد بجہ اس مرض میں مُبتلا ہوئے۔
ڈاکٹر اعجاز نے کہا کہ ان کی تنظیم گلگت بلتستان کے ان تمام ہیروز کو خراج تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے انسانیت کی خاطر جانیں قربان کیں اور زیر علاج ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکروں کی صحت یابی کے لئے دعا گو ہے۔
انہوں نےحکومت سے مُطالبہ کیاکہ وہ تمام ڈاکٹروں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئےسنجیدگی سے پبلک ہیلتھ سے متعلق پالیسیاں مرتب کرے اور ڈاکٹر وں کی تنظیموں کی جانب سے جو مُطالبات پیش کئے گئے تھے اُن پر عمل در آمد کو یقینی بنائیں تا کہ ڈاکٹروں کو اس وبا سے محفوظ بنایا جائے کیونکہ مسیحا خود محفوظ ہونگے تو وہ دوسروں کا علاج بہتر انداز سے کر سکیں گے۔
پاکستان میں ڈاکٹروں اور پیرامیڈکس کا حال
پاکستان میں گذشتہ دو دنوں کے اندر کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے دوران سات ڈاکٹر اور ایک نرس اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان شہیدوں میں سے ڈاکٹر زبیر احمد اور ڈاکٹر سلیم مینگل کا تعلق کوئٹہ سے ہے، ڈاکٹر نعیم اختر کاگوجرانوالہ، ڈاکٹر فاطمہ ثناء، ڈاکٹر محمد سلیم اور ڈاکٹر سلمان طاہر کالاہورسے، ڈاکٹر خانزادہ کا ہنگو سےاوراقلیتی مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی نرس مسرت دلبر کا انتقال کوہاٹ میں ہوئی ہے۔
ڈاکٹر ثنا فاطمہ جس نے اپنی زندگی کے صرف 20 بہاریں دیکھی تھیں، کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد لاہور کے ایک نجی اسپتال میں ان کا انتقال ہوا۔
بائیں بازو کے عوامی ورکرز پارٹی پنجاب کے صدر عمار راشد نے ڈاکٹروں کی بڑی تعداد میں متاثر ہونے اور اموات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی ڈاکٹرز اور نرسیں روزانہ کی بنیاد پرمررہی ہیں جبکہ حکومت مسلسل جھوٹ پہ جھوٹ بولتی ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان تمام اموات کی ذمہ داری تحریک انصاف کی حکومت پر عائد ہوتی ہیں ، جو صنعتی، مذہبی اور تاجروں کے گروپوں کو خوش کرنے کی خاطرصحت کے کارکنوں کی جانیں قربان کررہی ہیں۔
ڈاکٹر ثنا فاطمہ نے پسماندگان میں شوہر اور ایک بیٹی کو سوگوار چھوڑا ہے۔
بایاں بازو کی طالب علم کارکن اور طلباء حقوق مارچ میں انقلابی گیت سرفروسی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے سے شہرت پانے والی عروج اورنگزیب نے کہا کہ "مجموعی طور پر 1،770 سے زائد صحت کارکن کورونا سے متاثر ہیں اور 21 اس وبائی بیماری سے لڑتےہوئے فوت ہوگئے۔
اس ماہ کے شروع میں ایک اور ڈاکٹر جو بہاولپور کے قائداعظم میڈیکل کالج سے حال ہی میں فاریغ التحصیل ہوی تھی نے، راولپنڈی میں اس وائرس سے دم توڑ دیا. جبکہ اس نے ابھی اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کا آغاز کرنے والی تھی۔ ڈاکٹر رابعہ طیب نے 20 اپریل کو ہلکے فلو اور کھانسی کے علامات کے بارے میں شکایت کی تھی جسے ڈاکٹروں نے "عام بخار” قرار دیا تھا۔
جب چار دن بعد اس کی حالت خراب ہوئی تو اسے ہولی فیملی اسپتال لایا گیا اور وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا تھا. لیکن 30 اپریل کو اس کی موت ہوگئی۔
پنجاب میں29 مئی کو 29 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی ہے ، جو اب تک کی سب سے زیادہ ایک روزہ ہلاکتوں کی تعداد ہے۔ محکمہ صحت نے بتایا کہ مرنے والوں کی اکثریت صوبائی دارالحکومت لاہور میں ہوئی ہے۔
پاکستان میں 26 فروری کو پہلی بار وائرس کے پھیلنے کے بعد سے اب تک صوبے میں مجموعی طور پر تقریبآ 23،500 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔
ڈان اخبار نے وزارت صحت کے اعداد و شمار کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ پاکستان میں کوویڈ 19 میں 21 طبی پیشہ ور افراد کی موت ہوئی ہے. مجموعی طور پر ایک ہزار 1904 افراد کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ ان میں 299 نرسیں ، 570 دیگر ہیلتھ کیئر اسٹاف اور 1،035 ڈاکٹر شامل ہیں۔
ان میں سے 171 اسپتال میں داخل ہیں؛ 167 مستحکم حالت میں ہیں جبکہ چار وینٹیلیٹر پر ہیں۔ مزید یہ کہ 679 صحت یاب ہوکر اسپتال سے فارغ کردیا گیا ہے۔
سندھ میں آٹھ ہیلتھ کارکنوں کی ہلاکت کی اطلاع ہے، جو صوبوں میں سب سے زیادہ ہیں ، اور طبی ماہرین میں یہ تعداد 538 ہے۔
دوسری طرف، خیبر پختونخواہ میں صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں میں 552 متاثر ہوئے ہیں جو تمام صوبوں میں سب سے زیادہ ہیں جن میں 249 ڈاکٹر، 97 نرسیں اور 205 دیگر صحت کارکن شامل ہیں۔
پورے ملک میں وائرس سے متاثر ہونے والے 1،904 ڈاکٹروں میں سے 268 اہم نگہداشت کے وارڈ میں فرائض سرانجام دے رہے تھے جبکہ باقی 1،536 دوسرے مقامات پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں.