Baam-e-Jahan

گوجال میں کان کنی: ماحولیات اورجنگلی حیات پر اثرات

تحریر: فرمان بیگ

ہنزہ کی وجہ شہرت میں جہاں بہت سارے عوامل شامل ہیں ان میں سے ایک قدرتی ماحول کا صحت افزاء ہونا بھی ایک عنصر ہے. ہنزہ گوجال کے مقامی لوگوں کاقدرتی ماحول کو برقرار رکھنے اور پائیدار بنانے میں اہم کردار ہے. پاکستان اور دنیا بھر میں جنگل اور جنگلی حیات کے تحفظ میں یہ علاقہ ایک ممتاز مقام رکھتاہے.

اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے ماحول جو سٹاک ہوم کانفرنس کے نام سے جانا جاتاہے ماحول سے مطلق یہ پہلی کانفرنس تھی جس میں دنیا بھر کے ماحولیاتی مسائل پر غور فکر کرنے اور دنیا بھر کے منصوبہ سازوں کو ترقیاتی منصوبہ بندی کے دوران قدرتی ماحول کو بچانے اور تحفظ دینے کےاقدامات کرنے پر مجبور کردیتاہے.

اس کانفرس کا اثر پاکستان کے اقدار اعلی کے ایوانوں میں بیھٹے مقدادر حلقوں پر بھی ہوا اور ماحولیاتی آلودگی اور قدرتی وسائل کو قانوں سازی کی فہرست میں شامل کر نا پڑا ماحولیاتی مسائل بارے سٹاک ہوم کانفرنس سے جو سفارشات مرتب ہوئے تھے انھیں گائیڈ لائین کوبنیاد بناتے ہوئے آئی یو سی این اور ورڈ وائلڈ فنڈ فور نیچر کے اشتراک سے World Conservation st کی صورت میں سامنے آیا جس نے تحفظ ماحولیات کے پرانے تصورات کو یکسر تبدیل کرکے ایک نئے تصور کو متعارف کرایا تحفظ ماحول کو انسانوں کی غربت وافلاس کو ختم کرانے کے لیے مقامی آبادی کے ذریعہ سے قدرتی وسائل کو پائیدار بنیادوں پر تحفظ دینے کا ایک نیا تصور پیش کیا گیا ماحولیاتی تحفظ سے مطلق حکومت پاکستان نے صدارتی حکم نامے 1973 کےذریعے سے پہلی بار ماحولیاتی قوانین سے مطلق ایک ڈھانچہ فراہم کیا. جس کے تحت پاکستان انوائرنمٹل پروٹیکشن ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا. جس سےقوانین پر عمل درآمد کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں کے ماحولیاتی اثرات کے تجزیہ کو بھی لازمی قراردےدیاگیا۔

ان ہی ماحولیاتی قوانین کی بنیاد پر انڈس ہاوئے کا کچھ حصہ جو کھیر تھرنشنل پارک سے گزرنا تھا ماحولیات سے وابستہ کارکنان کے جدوجہد کی وجہ سے مطلقہ ادارےکو شاہراہ کا رخ تبدیل کرنا پڑا پاکستان میں ماحولیاتی تحفظ کی تاریخ کا شائید یہ اولین پروجکیٹ تھا. جسے تبدل کیا گیا اور اسکا ماحولیات پر اثرات کا اندازہ (انوائرمنٹل امپیکٹ اسیسمنٹ) کروانے کا فیصلہ ہوا آئی یو سی این نےاس شاہراہ کا ماحولیات پر اثرات جاننے کے لیے سروے کرایا. سروے سے پتہ چلا کہ شاہراہ کے منفی اثرات اسکے معاشی اثرات سے بہت زیادہ ہیں ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو اس شاہراہ کے رخ کو تبدلی کرنا پڑا۔یہ وہ حقائق ہیں جس نے ماحولیاتی تحفظ کو پاکستان میں مضبوط کرنے میں مدد فراہم کی۔

پاکستان میں تحفظ ماحول کے قوانین کی بنیاد پر جنگلی جانوروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر لوگوں کے اشتراک سے مقامی سطح پر سب سے پہلے چند رضاکاروں نے تورغر کنزرویشن پراجیکٹ کے نام سے جنگلی جانوروں کے تحفظ کا کام شروع کیا. مذکورہ پراجیکٹ تورغر کے پہاڑی علاقے میں ایک ہزار مربع میل پر پھیلاہوا ہے اس منصوبے میں مقامی آبادی کو شامل کرنے کی غرض سے لوگوں کو بطور گیم گارڈز مقرر کیا گیا. ان کی تنخواہوں کاخرچہ انٹری فیس اور شکار کے آمدن سے پورا کیاجاتارہا۔

گو کہ گلگت بلتستان میں مقامی آبادی کی سطح پر صرف جنگلی جانوروں کی حد تک تحفظ کا کام ہورہا ہے جب کہ کان کنی سے ماحول اور انسانی زندگیوں پر پڑنے والےخطرات سے تحفظ ماحولیات کی ملکی اور بین القوامی قوانین کے مطابق عمل درآمد تاحال نہیں ہورہا ہے.

گلگت بلتستان میں یواین ڈی پی کےمالی تعاون (PAK/93/G41UNDP) سے آئی یو سی این نے دیہی آبادی کی ترقی کےذریعے جنگلات اور جنگلی حیات کے پائیدار تحفظ، حیاتیاتی تنوع کی بقاء کے نام سے پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں پختونخوا اور گلگت بلتستان میں مقامی آبادی کے تعاون سے تین سالہ تجرباتی منصوبے کا آغاز کیا . تجرباتی منصوبہ مکمل ہونے پر مزید سات سالوں کے لیے 10.3ملین ڈالر سے مانٹین ایریاز کنز رونسی پروجیکٹ کے نام سے سات سالوں پر مشتمل منصوبہ شروع کیا. منصوبے کا بینادی مقصد مقامی کمینونٹی کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ مقامی افراد کو ہنرمند بنانا تھا تا کہ بہتر طور پر قدرتی وسائل کا تحفظ ممکن بنایا جاسکیں اس طرح ان قدرتی وسائل سے مقامی لوگوں کی ضرویات بھی پورا ہواور آنے والے نسلوں تک درست حالت میں منتقل بھی ہوسکیں۔

مائنٹین ایریازکنزروینسی پروجیکٹ گلگت بلتستان کے تین علاقوں– بلتستان، استور اور گوجال ہنزہ — میں بھی شروع کیا گیا اور مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر پائیدار ماحولیات تحفظ جنگل اور جنگلی حیات کے پروگرام کا سات سالہ حدف کامیابی کے ساتھ طے کیا. یاد رہے یہ واحد کامیاب منصوبہ ہے جوگزشتہ پیچس سالوں میں مقامی آبادی نے بغیر کسی بیرونی فنڈنگ اور رکاوٹ کے کامیابی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس کی کامیابیوں کا بنیادی محرکات درجہ ذیل ہیں:۔

— پروجیکٹ پر مقامی لوگوں کی حق ملکیت کو تسلیم کرنا۔
— معاشی فوائد کے حصول میں ان کا حصہ۔

— پروگرام کو پائیدار بنیادوں پر چلانے میں مقامی لوگوں کی رائے کا شامل ہونا۔

کمنیونٹی کنزرویشن ایریاز کو قانونی تحفظ دینے کے لیے حکومت پاکستان نے وزارت امور کشمیر نے "ناردرن ایریا وائڈلائیف ایکٹ 1975سیکشن 22 1(2)(b)(iii).28(1)اور80(1)(b)پاکستان فارسٹ ایکٹ” کے تحت کمونٹی کنزرویشن ایریا کا نوٹفیکشنا21 اکتوبر 1998 کو جاری ہوا.

ابتدا میں گوجال کے دو گاؤں، خیبر اور غلکین، کا نوٹفیکشن جاری ہو رفتہ رفتہ پورے گوجال کو اس ماحولیاتی تحفظ کے منصوبےمیں شامل کرتے گئے آج گوجال کے کمونٹی کنزرویشن ایریاز
عطاء آباد جھیل سے شروع ہوکے شمشال، مسگر اور وادی چیپورسن تک تمام علاقے کمیونٹی کنزرویشین ایریاز میں شامل ہیں، جہاں سالانہ ملکی اور بین القوامی ٹرافی ہنٹنگ کے لائسنس (قانونی شکار) کے ذریعے نہ صرف مقامی لوگوں کو معاشی فوائد حاصل ہور ہے ہیں بلکہ حکومت گلگت بلتستان کے محکمہ وائلڈلائف کو خطیر رقم زرمبادلہ کی صورت میں حاصل ہورہا ہے۔

نیز ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے اور فیصلہ سازی میں مقامی لوگوں کو شریک کرنے کے سلسلے میں چند اقدامات اٹھائےگئے. جس کے تحت رینج آفسر کے برابر اختیارات مقامی لوگوں کے نامزد کردہ شخص کواعزازی وائلڈلائف آفسر کاتقرر کے ساتھ ڈسٹرک سطح پر ڈسٹرک کنزرویشن کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا . تاکہ ضلع کی سطح پر مسائل حل ہونے میں مدد گار ثابت ہو. اس کے علاوہ گوجال کنزرویشن ایریاز کے تحفظ ماحول سے وابسطہ مقامی ماحولیاتی تنظیموں نے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے گوجال کنزرویشن اینڈ ڈولپمنٹ آرگنائیزئیشن کے نام سے ایک ادارہ کا قیام عمل میں لایا ہے، جو ممبر آرگنائیزیشن کے اجتماعی مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہے۔

گوجال کنزرویشن ایریا مقرر ہونے کے باوجود گلگت بلتستان محکمہ معدنیات گوجال کا کوئی ایسا علاقہ نہیں بچا ہے جہاں معدنیات کی کان کنی کے لیے لیز جاری نہ کیا ہو. ستم یہ ہے کہ محکمہ انوائرنمٹل پروٹیکشن ایجنسی بغیر کسی انوائرنمٹل اسیسمنٹ کے اجازت نامہ جاری کرتا ہے وہیں معدنیات کے حصول کے لیے جاری سرگرمیوں کی وجہ سے پائیدار تحفظ ماحولیات کے کوشیشوں کوشدید خطرات سے دوچار کیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ مختلف حکومتی اداروں کا آپس میں کوئے ربط اور تعاون نہیں. جس کے نتیجے میں علاقے میں کان کنی اور ماحولیاتی تحفظ کے قوانیں کی خلاف ورزیاں اور مقامی لوگوں کے درمیاں شدید تنازعات پیدا ہو رہے ہیں. ضرورت اس امر کی ہے ان تمام اداروں کو آپس میں مقامی لوگوں کے ساتھ گفت وشنید کے زریعے ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کو مربوط طریقے سے موثر انداز میں چلانے اور قانون کی پاسداری اور لوگوں کے شاملاتی مشترکہ زمینوں کے اوپر حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے. اور بزور طاقت اس قدرتی توازن کو نہ بگاڑا جائے. کان کنی کے قوانین مقامی لوگوں کے رائے اور موامی قوانین کو مد نظر رکھ کر بنانا چاہئے.

کورونا کے علمی وباء سے انسانیت نے یہ سبق سیکھاہے کہ چند ازرافیہ اور ظاقتور لوگوں اور اداروں کی بے تحاشا دولت اور وسائل پر قابض ہونے کی حوس نے پورے کرہ ارض اور اس پر بسنے والوں کو شدید خطرے سے دوچار کیا ہے. اب ہم مزید کان کنی اور قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال کے متحمل نہیں ہو سکتے. اب ماحول دوست اور انسان دوست متبادل ذرائع تلاش کرنے ہونگے، یہاں تک کی سیا حت کو بھی مکلمل طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں