کورونا کی وجہ سے سیاح کیلاش قبیلے کے سالانہ مذہبی تہوار چیلم جوش دیکھنے نہ آسکے۔
گل حماد فاروقی
وادی کیلاش کے کڑاکار گاؤں کی رہائشی75 سالہ خاتون دایمی بیگم کورونا سے پہلے چوک میں بڑی دکان چلاتی تھی. مگر کرونا کے نتیجے میں معاشی بحران کی وجہ سے اب وہ چھوٹی سی دکان میں آنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔دایمی جو اس ضعیف عمر میں بھی دکانداری کرکے اپنے اہل خانہ کیلئے کماتی ہے وہ بھی لاک ڈون کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ دایمی جو ناخواندہ ہے وہ اپنی مقامی زبان میں کہنے لگی کہ نہ صرف میری دکانداری خراب ہوئی بلکہ اس کے دکان کے ساتھ پچیس خواتین بھی متاثر ہوئی۔ یہ خواتین گھروں میں بیٹھ کر سلائی کڑھائی کا کام کرتی تھی اور وہ ان کی بنائی ہوئی چیزیں اپنی دکان میں بیچتی تھی اپنا کمیشن نکال کر وہ اس رقسم کو ان خواتین میں بانٹتی تھی جو اس کیلئے چیزیں بناتی ہیں۔
دایمی کا کہنا ہے کہ نہ صرف اسے نقصان کا سامنا کرنا پڑا بلکہ وہ گھریلوں خواتین بھی بری طرح متاثر ہوئی اور سیاح نہ آنے کی وجہ سے ان کی ہاتھوں کا بنی ہوئی چیزیں نہیں بک سکی۔اس کے مطابق اسے کم از کم چار پانچ لاکھ کا نقصان ہوا
کرونا وائیریس نے جہاں دنیا بھر کی معیشت اور کاروبار کو متاثر کیا ہوا ہے وہاں اس وباء کی وجہ سے کیلاش کے مذہبی تہوار چیلم جوش پر بھی سیاح نہ آسکے۔ چیلم جوش کا تہوار نہ صرف کیلاش لوگ مذہبی رسومات کے طور پر مناتے ہیں بلکہ اس تہوار میں نوجوان لڑکیاں اپنے من پسند لڑکوں کے ساتھ بھاگ کر شادی کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ اس تہوار میں خواتین ٹولیوں کی شکل میں روایتی رقص پیش کرتی ہیں جبکہ ان کے ساتھ مرد بھی ٹولیوں رقص کرتے ہیں بعض اوقات کوئی مرد اپنے دائیں بائیں خواتین کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر بھی رقص کرتا ہے۔ اس رنگارنگ تہوار کو دیکھنے کیلئے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح بھی ان وادیوں کا رح کرتے ہیں جن کی آمد سے یہاں کے کاروباری طبقہ کافی خوش ہوتا ہے اور سال میں چھ مہینے بند ہوٹلوں میں ایک بار پھر رونق لگتا ہے۔ لاک ڈون کی وجہ تمام ملکی اور غیر ملکی سیاحوں پر چترال آمد پر پابندی لگائی گئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ یہ سالانہ مذہبی تہوار بھی ماضی کی طرح نہیں منایا گیا جس کی وجہ سے سیاح بھی اس وادی میں نہ آسکے۔
کیلاش لوگ ہزاروں سالوں سے سال میں دو بڑے اور دو چھوٹے تہوار مناتے ہیں۔ ان تہواروں میں کیلاش لوگ رقص کرتے ہوئے گیت گاتے ہیں اور ڈھولک بجاتے ہیں ان کی محصوص ثقافت، لباس،اور نرالی طرز زندگی کو دیکھنے کیلئے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔ اور یہاں کے لوگ ان تہواروں میں آنے والے سیاحوں کا راہ تکتے ہیں
نہ صرف وادی کیلاش میں مقیم ہوٹل مالکان بلکہ چترال بھر کے ہوٹل والے اس تہوار کا انتظار کرتے ہیں جو اس تہوار کو دیکھنے کیلئے آنے والے سیاح ان ہوٹلوں میں ٹھرتے ہیں اور ان کو ان ہی سیاحوں سے آمدنی ہوتی ہے۔ اس مرتبہ کرونا وائیریس کی وجہ سے ملک بھر میں تمام قسم کے نقل و حرکت پر پابندی لگی تھی یہی وجہ ہے کہ چیلم جوش تہوار میں کئی سیاح نہیں آیا۔
اس تہوار کے دوران کیلاش خواتین رنگین لباس پہن کر ٹولیوں کی شکل میں روایتی رقص پیش کرتی ہیں اور مذہبی گیت گاتی ہیں جبکہ نوجوان لڑکے ڈھولک بجاتے ہیں۔ اس رنگا رنگ تہوار کو دیکھنے کیلئے پاکستان کے تمام صوبوں کے علاوہ کثیر تعداد میں غیر ملکی سیاح بھی ان وادیوں کا رح کرتے ہیں۔یہی سیاح یہاں ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں اور وادی کیلاش کے دکاندار بھی ان سیاحوں کا انتظار کرتے ہیں جس سے ان کی بِکری میں اضافہ ہوتا ہے۔
تہوار میں آنے والے سیاح یہاں مقامی ہوٹلوں میں ٹھر نے کے ساتھ ساتھ دکانوں سے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں بھی خریدتے ہیں جو عموماً یہاں کے خواتین گھروں میں بیٹھ کر ہاتھوں سے بناتی ہیں وہ ان چیزوں کو بمبوریت بازار میں لاکر دکانداروں کے حوالہ کرتی ہیں اور یہ چیزیں بکنے کے بعد ان کو اس کا رقم دیا جاتا ہے۔
برون گاؤں میں ایک دکاندار سلیم کا کہنا ہے کہ کرونا کی وجہ سے اس بار نہ تو چیلم جوش میں کوئی سیاح آیا نہ اوچال تہوار میں یہی وجہ ہے کہ اس کی دکان میں پڑی ہوئی چیزیں نہیں بکی۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے دکان کے ساتھ 22 خواتین وابستہ ہیں جو ان کے دکان سے چیزیں خریدتی ہیں اور اس سے شلوار، قمیص، کیلاش کپوسی یونی ٹوپی اور دیگر پوشاک بناتی تھی اوران کی دکان میں رکھ کر وہ اسے بیچتا تھا مگر اس دفعہ لاک ڈون کی وجہ سے بازار بھی بند تھا اور سیاح بھی نہیں آئے تو اسے دس لاکھ تک نقصان ہوا اور ان گھریلوں خواتین کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک کیلاش لڑکی علینہ جو طالب علم ہے ان کا کہنا ہے کہ کیلاش خواتین گھروں میں بیٹھ کر محتلف دستکاری کی چیزیں بناتی ہیں اور انہیں بیچ کر خود بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور عمر رسیدہ خواتین اپنے بچوں کو ان ہی سے تعلیم دلاتی ہیں مگر اس دفعہ لاک ڈون کی وجہ سے یہ چیزیں نہیں بکی اور اسی طرح دکانوں میں پڑی ہیں۔
علینہ سے جب پوچھا گیا کہ اس کا حل کیا ہے کیونکہ اکثر ایسے وباؤں کی وجہ سے ان کی تہوار بھی متاثر ہوتی ہیں تو ان کا کہنا تھ اکہ حکومت کو چاہئے کہ ان کے ساتھ مالی تعاون کرے یا بلا سود قرضے دے تاکہ یہ لوگ اپنے پاؤں پر کھرے ہوسکے۔
ہدایت اللہ کا تعلق چترال ریحان کوٹ سے ہے اور پچھلے بیس سالوں سے وادی کیلاش کڑاکاڑ گاؤں میں جیم سٹون اور جیولری کا کاروبار کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی دکان سے یہاں کی خواتین یہ چیزیں خریدتی ہیں یا ادھار لیتی ہیں اور اس سے گلے کے ہار، موتیوں سے بنے ہوئے چوڑیاں، لاکٹ، پرس وغیرہ بناتی ہیں اور ان کو اس کے دکان میں بیچنے کیلئے رکھتی ہیں اور کیلاش لوگوں کے ان تہوار میں آنے والے سیاح ان چیزوں کو خریدتے ہیں جس سے ان کو اچھا حاصا منافع ملتا ہے مگر اس مرتبہ لاک ڈون کی وجہ سے کوئی سیاح نہیں آیا
آنے والے سیاح ان چیزوں کو خریدتے ہیں جس سے ان کو اچھا حاصا منافع ملتا ہے مگر اس مرتبہ لاک ڈون کی وجہ سے کوئی سیاح نہیں آیا اور وہ چیزیں ابھی تک دکان میں پڑی ہیں۔
ہدایت اللہ سے جب یہ پوچھا گیا کہ لاک ڈون کی وجہ سے اس کے دکان سے وابستہ کتنی خواتین متاثر ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ کم از کم بیس خواتین بری طرح متاثر ہوئی۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ حکومت ان متاثرہ لوگوں کے ساتھ مالی طور پر مدد کرے تاکہ یہ ایک بار پھر اپنی پاؤں پر کھڑے ہوسکے۔
کرشمہ کا تعلق وادی بریر سے ہے ان کا کہنا تھا کہ بریر چونکہ کیلاش کی دیگر وادیوں کی نسبت دور ہے جہاں بہت کم سیاح آتے ہیں مگر اس دفعہ کرونا کی وجہ سے کوئی بھی سیاح یہاں نہیں آیا اور ان کی وادی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں چونکہ کوئی کارحانہ وغیرہ نہیں ہے لوگ ان سیاحوں کا راہ تکتے ہیں اور ان کی وجہ سے لوگوں کو آمدنی آتی ہے مگر اس دفعہ کچھ بھی نہیں ہوا۔
کیلاش کے وادی بمبوریت میں ہوٹل ایسوی ایشن کے صدر عبدالخالق کیلاش کا کہنا ہے کہ یہاں کیلاش وادی میں 32 دکانیں ہیں یہ دکانیں سال میں چھ مہینے بند رہتے ہیں کیونکہ یہاں بہت زیادہ برف باری ہوتی ہے اور صرف چھ مہینے ان کا کاروبار چلتا ہے ان ہوٹلوں کے مالکان اکثر کیلاش کے ان تہواروں میں سیاحوں کا انتظار کرتے ہیں جن کی آمد سے ان کی سال بھر کا حسارہ پورا ہوتا ہے مگر اس مرتبہ لاک ڈون لوگ گیا اور ان کے قسمت پر بھی تالے لگ گئے۔ عبد الخالق کیلاش کا کہنا ہے کہ سیاحوں کی نہ آنے سے ان ہوٹل مالکان کو کم از کم ایک ارب روپے کا نقصان ہوا۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ اگر اس قسم وباؤں کی وجہ سے اگر ان تہواروں میں سیاح نہ آسکے اور مقامی لوگوں کا معیشت متاثر ہوتا رہتا ہے تو اس کا حل کیا ہے تو عبدالخالق نے آسان جواب دیا کہ حکومت کو چاہئے کہ ان تہواروں میں آنے والے سیاحوں کو نہ روکے بلکہ ان کو پابند کرے کہ SOP کا حیال رکھے اور ہم بھی ایس او پی کا حیال رکھیں گے یا پھر حکومت کو چاہئے کہ ہمارے ساتھ مالی تعاون کرے۔
عبد الخالق کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کا ذاتی ہوٹل ہے ان کیلئے اتنا مسئلہ نہیں ہے وہ صرف عملہ کو جیب سے تنخواہ دیتا ہے مگر جن لوگوں کے پاس کرائے کے ہوٹل ہیں وہ عملہ کو تنخواہ جیب سے دینے کے ساتھ ساتھ مالکان کو کرایہ بھی جیب سے دیتے ہیں۔
کیلاش وادی میں غیر مقامی سیاحوں سے بھی پچاس روپے ٹیکس وصول کیا جاتا جبکہ غیر ملکی سیاحوں سے ڈیڑھ سو روپے وصول کی جاتی ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق یہ رقم کیلاش کے فلاح و بہبود پر خرچ ہوتی ہے۔ پچھلے سال ہزاروں کی تعداد میں ملکی سیاح آئے تھے جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں غیر ملکی سیاح بھی آئیے تھے۔ چونکہ ان غیر ملکی سیاحوں کی آمد پر NOC یعنی اجازت نامہ لینے کا شرط حتم کیا گیا ہے اسلئے اب ان کا کوئی حاص ریکارڈ بھی تیار نہیں کیا جاتا ہے مگر ان کی تعداد سینکڑوں میں تھی مگر اس سال ایک بھی غیر ملکی سیاح چیلم جوش کے موقع پر نہیں آیا۔ اور ان سیاحوں کی نہ آنے سے ٹیکس کا رقم بھی صفر رہا۔
پچھلے سال ایک لاکھ سے زیادہ سیاح وادی کیلاش آئے تھے اور ایک محتاظ اندازے کے مطابق چالیس ہزار گاڑیاں اس وادی میں داحل ہوئی تھی رش کی وجہ سے آیون سے لیکر بمبوریت تک ایک گھنٹے کا سفر نو گھنٹوں میں طے ہوا تھا جبکہ سیاح اتنی بڑی تعداد میں آئے تھے کہ وادی میں کوئی ایسا ہوٹل نہیں تھا جس میں کوئی چھوٹا سے چھوٹا کمرہ بھی حالی رہ گیا ہو بلکہ اکثر سیاحوں نے ادایگی کرکے ہوٹلوں کے لان میں ٹنٹ لگاکر قیام کیا تھا۔ اکثر سیاحوں نے ایک کمرے کیلئے دس ہزار تک بھی ادیگی کی تھی مگر اس سال کرونا نے سارا کام حراب کیا اور ان ہوٹلوں کا کرایہ بھی جیب سے دینا پڑا۔
چترال شہر میں ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر ادریس خان کا کہنا ہے کہ چترال میں تقریباً 85 ہوٹل ہیں جو صرف ان سالانہ تہواروں پر سیاحوں کا انتظار کرتے ہیں جبکہ عام دنوں میں صارفین کی تعداد نہایت کم رہتی ہے ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈون کی وجہ سے ان کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ باہر سے آنے والے چترال کے لوگوں کیلئے ان ہوٹلوں کو قرنطینہ مراکز بنائے گئے تھے مگر ابھی تک ان کو ادایگی نہیں ہوئی اور انہوں نے ضلعی انتظامیہ کو تین کروڑ روپے کا بل دیا ہوا ہے۔
اس سلسلے میں جب ضلعی انتظامیہ میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈیزاسٹر عبد الولی خان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بھی تسلیم کیا کہ لاک ڈون کی وجہ سے اس سال کیلاش قبیلے کے سالانہ تہواروں میں سیاح نہیں آئے جس سے اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ سیاح نہ صرف وادی کیلاش میں جاکر تہوار دیکھتے ہیں اور وہاں ہوٹلوں میں ٹھرتے ہیں بلکہ یہاں کے دکانوں سے حشک میوہ (ڈرائی فروٹ) چترالی سوغات، سلاجیت، چترالی ٹوپی، واسکٹ، چوغہ، کوٹ وغیرہ بھی خریدتے ہیں اور ان کی وجہ سے پوری چترال کی معیشت پر اچھے اثرات پڑتے ہیں مگر اس دفعہ پورا چترال بری طرح متاثر ہوا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ عنقریب ان ہوٹل مالکان کو قرنطینہ مراکز کی قیام کیلئے ادایگی ہوگی۔
پرانے پی آئی اے چوک میں حاجی غلام حمید پچھلے چالیس سالوں سے ڈرائی فروٹ کا کاروبار کرتا ہے اور ان تہواروں پر آنے والے سیاح کیلاش کا میلہ دیکھنے کے بعد چترال کا رح کرتے ہیں اور ان دکانوں
سے خشک میوہ خریدتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس دفعہ ایک سیاح بھی نظر نہیں آیا یہی وجہ ہے کہ ان کی دکان میں چیزیں اب بھی پڑی ہیں۔
حاجی ظاہر خان کا شاہی بازار میں نہایت پرانا دکان ہے جہاں چترالی پٹی سے بنی ہوئی ٹوپی، واسکٹ، کوٹ، چوغہ، شال وغیرہ کا کاروبار ہوتا ہے اور کیلاش تہواروں کو دیکھنے کیلئے آنے والے سیاح پھر چترال بازار میں بھی ان چیزوں کو خریدتے ہیں مگر اس دفعہ ان کی کوئی بکری نہیں ہوئی اور جو مال منگوایا تھا وہ ویسے کا ویسا ہی رہ گیا۔
حاجی ظاہر خان کا کہنا ہے کہ ایسے تہوار چترال کیلئے نہایت ضروری ہیں کیونکہ یہاں کوئی کارحانہ (انڈسٹری) یا کوئی بڑا کاروبار نہیں ہے اور لوگ ان میلوں میں سیاحوں کے انتظار میں رہتے ہیں جو چھ مہینے سے ان کا کاروبار ٹھپ ہوتا ہے مگر جب یہ تہوار نہیں ہوتے یا ان کیلئے آنے والے سیاحوں پر پابندی لگائی جائے تو اس سے پورا چترال متاثر ہوتا ہے۔ چترال کی معیشت کا دارومدار ان سیاحوں پر مبنی ہے
حاجی ظاہر خان کا کہنا ہے کہ ایسے تہواروں کا چترال کی تعمیر و ترقی میں بڑا کردار رہا ہے انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہ ان تہواروں میں اکثر نہایت اہم لوگ آتے ہیں جو ترقیاتی کاموں کا اعلان کرتے ہیں اسی طرح شندور کے موقع پر سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے لواری سرنگ کی تعمیر کا اعلان کیا تھا اور وہ اب مکمل ہوا جس کی وجہ سے چترال کے لوگوں کو سال کے بارہ مہینے سڑک کھلا رہتا ہے