Baam-e-Jahan

وزیر کے ساتھ بدسلوکی: ایف ڈبلیو او کے کپٹین اور اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج

رپورٹ: روشن دین

چیلاس : روندو پولیس نے ایک آرمی آفیسر اور 20 دیگر اہلکاروں کے خلاف وزیر صحت گلگت بلتستان حاجی گلبر خان، رکن اسمبلی مولانا فضل رحیم، ان کے ڈرائیور اور گن مین پر تشدد، اغوا ء اور حبس بے جا میں رکھنے کے الزام میں مقدمات درج کیئے ہیں۔
پولیس نے فرنٹئر ورکس آرگنائزیشن کے کیپٹن عثمان، فاروق اور 20 دیگر اہلکاروں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کے دفعات، ،506 361,147,324 342 123, اغواء، قتل کی نیت سے حملہ، زدوکوب، جان سے مارنے کی دھمکی، غیر قانونی طور پر حبس بے جا میں رکھنے، پاکستان کا جھنڈا اتارنے اور بے حرمتی کرنے، اور کارسرکار کی انجام دہی میں مزاحمت کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ جن کی سزا ایک سال سے دس سال تک ہے۔
پولیس رپورٹ کے مطابق ہفتہ کے روز تقریبا 4 بجے حاجی گلبر خان، مولانا فضل رحیم، ان کے ڈرائیور رحمت نبی، گن مین عبدل حلیم اور بیٹا حبیب الرحمنٰ سرکاری دورے پہ بلتستان سے گلگت واپس آ رہے تھے۔ آستک نالہ کے مقام پر ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں نے کام کی وجہ سے روڈ بند کیا تھا.
حاجی گلبر واپس استک ناکہ آئے اور تقریبا 5:30 بجے دوبارہ آگے گئے تو ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں نے انہیں آگے جانے سے روک دیا جہاں کام ہو رہا تھا.
اسی دوران حاجی گلبر کے گارڈ اور ڈرائیور اور ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں کے درمیان مبینہ طور پر تلخ کلامی ہوئی۔ جس کےبعد اہلکاروں نے حاجی گلبر اور مولانا فضل رحیم ان کے گارڈ اورڈرائیور کو بندوق کے زور پر گاڑی سے اتارااور اپنے ساتھ قریبی کیمپ لے کےگئے۔ جہاں انہوں نے حاجی گلبر اور فضل رحیم کو ایک روم میں جبکہ ڈرائیور اور محافظ کو ایک الگ روم میں رکھا اور ان سے موبائل فون، شناختی کارڈ اور دیگر اشیاء چھین لئے؛گارڈ اور ڈرائیور پہ تشدد بھی کیا؛ اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔ اسی اثنا میں روندو کے ایس ایچ او پولیس اہلکاروں سمیت وہاں پہنچے اور انہوں نے انہیں چھڑایا۔

ذرائع کے مطابق اس واقعہ کی خبر جب سوشل میڈیا پہ پھیل گیا تو ایف ڈبلیو او کے ایک مقامی آفیسر نے معافی نامہ بنا کے اس پہ زبردستی دستخط کرنے کو کہا ۔ انکارکی صورت میں ان کو مبینہ طور پر دھمکیاں دیا کہ وہ انہیں مار کے دریا میں پھینک دیں گے۔

عینی شاہدین میں سے ایک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بام جہاں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تین وزراء ، راجہ ناصر، وزیر سلیم اور کاظم میثوم نے زبانی صلح صفائی کرانے کی کوشیش کیں لیکن حاجی گلبر نے انکار کیا اور ذمہ داران کے خلاف شکایت درج کرنے پر زور دیا۔

بعد ازاں گلگت میں ایک اعلی سطحی میٹنگ ہوئی جہاں ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشیش کی گئی لیکن حاجی گلبر نہیں مانے ۔ آخر کار سوشل میڈیا دباؤکے نتیجے میں ایف ڈبلو او کے کیپٹین عثمان، فاروق اور 20 دیگر اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ۔

اس سلسلے میں جب گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان علی تاج سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس واقع پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ، "اسکردو روڈ پر پر معزز صوبائی وزیر اور ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں کے مابین پیش آنے والا واقع انتہائی ناخوشگوار و افسوس ناک ہے۔ ”
انہوں نے کہا کہ ” کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ قانون کے سامنے سب برابر اور اپنے عمل و طرز عمل کے لئے جوابدہ ہیں۔”
علی تاج نے یقین دہانی کیا کہ اس واقعے کی شفاف تحقیقات ہوگی اور حقائق عوام کے سامنے لائیں گے "۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق کاروائی ہوگی؛ اور کسی کیساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔
اس واقعہ پر سوشل میڈیا پر سخت رد عمل د یکھنے میں آیا۔ اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ایک منتخب نمائیندے کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی عدالتی انکوائعی کی جائے اور اس میں ملوث اہلکاروں کو سزا دی جائے۔
سینئر وکیل اور سیاسی رہنماء احسان علی ایڈووکیٹ نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کی ایف ڈبلیو او کو علاقہ سے باہر نکالنا چاہئے اور ان پر پابندی لگانا چاہئے۔
عوامی ورکرز پارٹی نے ایک بیان میں اس واقعہ کی مزمت کرتے ہوئے ایک غیر جانبدار انکوائری اور اس میں ملوث اہلکاروں کو سکت سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔
بہت سے صارفین نے اس کو ان واقعات کا تسلسل گردانا جو گزشتہ کچھ عرصے سے خطے کے لوگوں کے ساتھ ہو رہے ہیں ۔
اس سلسلے میں گزشتہ دنوں روندو میں ہی ایک بیکری پہ پیش آیا جہاں ایف ڈبلیو او کے اہلکار اکثر آتے ہیں اور کھانے پینے کی اشیا بغیر قیمت ادا کئےلے جاتے ہیں ۔ ہفتہ کے روز جب ایک درجن کے قریب اہلکار اس بیکری پہ آئے اور چیزیں کھا پی کے جانے لگے تو بیکری کے مالک نے رقم طلب کیا، جس پر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے دو بیٹوں کو زبردستی اپنے ساتھ اپنے کیمپ لے کے گئے اور انہیں مارا پیٹا۔
سیاسی و سماجی کارکنوں نے سوشل میڈیا پر اس واقعے کے اوپر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کی اس قسم کے واقعات کا تدارک کیا جائے ۔ اگر یہ جاری رہی تو اس کے ناخوشگوار نتائج نکل سکتے ہیں اور علاقے میں نقص امن کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام ریاستی اداروں کے اہلکاروں خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران کو قانوں کا احترام کرنا چاہئے اور عوام کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا چائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے