Baam-e-Jahan

سماج میں طاقت کی مختلف شکلیں

تحریر: قاسم یعقوب
Power structure and society

سماج میں طاقت اور علم (وہ خیالات جو حکمران طبقے کے مفادات کا دفاع کرتے ہیں) کا ہمیشہ سے ایک گٹھ جوڑ (Nexus) رہا ہے۔ علم سے مراد وہ معلومات نہیں جو کائنات اور انسان کے درمیان تعلق کی وضاحت کرتی ہے بلکہ وہ تربیت ہے جو علم کے نام پر عوام کے تصورِ زندگی کو عام رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ بیانیے ہیں جو علم کی شکل میں طاقت ور کو مزید طاقت دینے پر آمادہ کرتے ہیں۔ فوکو Discipline and Punish میں لکھتا ہے:

“There is no power relation without the correlative constitution of a field of knowledge, nor any knowledge that does not presuppose and constitute at the same time power relations”

یہاں علم کا تصور طاقت کی تشریح کرتا ہے۔ طاقت اور علم کے درمیان ایک رشتہ تعمیر کرتا ہے۔ گزشتہ کچھ صدیوں سے علم اور طاقت کے درمیان اس مضبوط رشتے کی دریافت سے حکمرانی کرنے میں زیادہ سہولت ہوئی۔ علم کے وہ تمام ذرائع جن سے طاقت کو ضرورت بناکر پیش کیا جا سکتا ہے، اب حکمرانوں کا محور بن گئے ہیں۔ طاقت کے تصور کو بیان کرتے ہوئے فوکو نے حکمران اور عوام کے درمیان علم (Knowledge) کو بطور ذریعہ (Source) پہچانا تھا۔ ایک سماج میں رہتے ہوئے طاقت کی اور بھی شکلیں ہوتی ہیں جو ان دو طبقوں سے علیحدہ چھوٹے چھوٹے طبقات اور شعبہ جات میں متحرک ہوتی ہیں۔ ان شکلوں کو بھی پہچاننے کی ضرورت ہے جو بلاخر اوپر جا کر حکمران طبقے کی ضرورت کو پورا کرتی ہیں۔

طاقت اب تنہا کچھ نہیں، اسے بہر حال اپنے ساتھ سماج میں عمل آرا دوسری طاقتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے، ورنہ اس کا اپنا وجود خطرے میں پڑا جاتا ہے۔ اب صرف عوام اور حکمران دو طبقے نہیں رہ گئے جن کو علم کے ذریعے کنٹرول کر کے حکمران چین کی نیند سو جائیں، انھیں ان تمام طاقتوں کو بھی کنٹرول کرنا ہوتا ہے جو عوام کے اندر سے مختلف شعبوں میں سر اٹھا رہی ہوتی ہیں، ان کی طاقت کا متبادل بن رہی ہوتی ہیں۔ پاکستانی سماج میں ان طاقتوں کو بہت آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے۔ یہ زیادہ تر سرکاری عہدہ داروں کے اختیار (Authority) میں نظر آتی ہیں، مگراس کے علاوہ بھی بہت سی طاقتیں ہوتی ہیں جو مل کر بلاخر بڑی طاقت یعنی حکمرانوں کی طاقت بنتی ہیں (حکمرانوں سے مراد صرف سیاست دان نہیں بلکہ طاقت کے وہ تمام مراکز ہیں جو حکمرانی میں پس منظر یا پیش منظر میں شامل رہتے ہیں۔)

طاقت اب تنہا کچھ نہیں، اسے بہر حال اپنے ساتھ سماج میں عمل آرا دوسری طاقتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے، اور ان کو کنٹرول بھی کرنا ہوتا ہے جو عوام کے اندر سے مختلف شعبوں میں سر اٹھا رہی ہوتی ہیں، ان کی طاقت کا متبادل بن رہی ہوتی ہیں۔ پاکستانی سماج میں یہ ظاقتیں زیادہ تر سرکاری عہدہ داروں کے اختیار (Authority) میں نظر آتی ہیں، مگراس کے علاوہ بھی بہت سی طاقتیں ہوتی ہیں جو مل کر بلاخر بڑی طاقت یعنی حکمرانوں کی طاقت بنتی ہیں

یہ چھوٹی طاقتیں بذات خود طاقت کے اظہار سے زیادہ طاقت کے احساس کے ساتھ سماج میں عمل آرا ہوتی ہیں۔ انھیں کیسے احساس ہوتا ہے کہ وہ طاقتور ہیں؟ یہ طاقتیں اپنی حیثیت کا اندازہ تبادلے (Barter) کی اہمیت سے لگاتی ہے۔ یعنی ایک شخص کے پاس کتنی طاقت ہے وہ اس کا اندازہ کسی اور طاقت سے لین دین کے ذریعے لگائی گی۔ اس سے یہ بات بھی پتا چلتی ہے کہ اس کے پاس اتنی طاقت نہیں ہوتی، جتنا وہ دوسروں کی طاقت سے اپنے آپ کو طاقت ور بناتاہے۔

آئیے طاقتوں کے اس تبادلے کے نظام (Barter System) کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں۔

سرکاری عہدہ داران عموماً سماج میں حکمرانوں کے مہرے ہوتے ہیں۔ حکمران اپنی پالیسیاں اور اختیارات کو موثر بنانے کے لیے ان کا سہارا لیتے ہیں۔ پولیس آفیسر اس لیے طاقت ور ہوتا ہے کیوں کہ وہ حکمرانوں کے لیے عوام کے خلاف ہروہ عمل کر سکتا ہے، جس سے خوف زدہ ہو کر وہ مطیع رہیں۔ یوں یہ تمام سرکاری عہدہ دار جو عوام پر حکمرانی نافذ کر تے ہیں طاقت ور بنا دیے جاتے ہیں۔ یہ تبادلے یا بارٹر کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ ان کو استعمال کرنے کے لیے ایسی طاقت دی جاتی ہے جس کی مدد سے وہ عوام میںطاقت ور دکھائی دیتے ہیں۔ اگر یہ سرکاری عہدہ دار اپنی طاقت کا اظہار نہیں کریں گے تو وہ حکمرانوں کو طاقتور نہیں بنا سکیں گے۔ یوں ان سے ان کے عہدے چھین بھی لیے جاسکتے ہیں۔ عموماً ایسے عہدے دار پولیس، عدالتوں، فوج، انتظامیہ اور وزارتوں سے وابستہ ملازمین کے پاس ہوتے ہیں جو براہِ راست عوام سے منسلک ہوتے ہیں۔

سماج میں دوسرا طبقہ وہ ہوتا ہے جوعہدہ دار نہیں ہوتا۔ یہ مذہبی رہنمایاعالمِ دین، وکیل، صحافی، وڈیرے، بدمعاش اور دولت کا اتکازکرنے والے ہوتے ہیں۔ ان سب کے پاس ایک خفیہ یا اعلانیہ طاقت ہوتی ہے جوسماج کے اندر دوسری طاقتوں کے کام آنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

سماج میں دوسرا طبقہ وہ ہوتا ہے جوعہدہ دار نہیں ہوتا۔ یہ مذہبی رہنمایاعالمِ دین، وکیل، صحافی، وڈیرے، بدمعاش اور دولت کا اتکازکرنے والے ہوتے ہیں۔ ان سب کے پاس ایک خفیہ یا اعلانیہ طاقت ہوتی ہے جوسماج کے اندر دوسری طاقتوں کے کام آنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

گدیوں سے وابستہ سجادہ نشین، علما ئے دین اور مذہبی تقدس کا لبادہ اوڑھے افراد کے پاس ایسی طاقت ہوتی ہے جس کے حصول کے لیے سماج کی دوسری طاقتیں ان سے بارٹر کرتی ہیں۔ یہ مندرجہ ذیل طرز کی ہو سکتی ہیں:

۱۔ ان کے پاس بہت بڑی تعداد میں پیروکار ہوتے ہیں جو ووٹ کی شکل میں اقتدار کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ وہ ان ماننے والوں سے احتجا ج توڑ پھوڑ سے لے کرکسی بیانیے کی تشکیل دینے تک کے سب کام لے سکتے ہیں۔ اب تو بہت سے گدی نشین اور علمائے دین خود سیاست میں کود پڑے ہیں۔ اپنی طاقت کو Barter کرنے کی بجائے وہ خود اس کا استعمال کرنے لگ گئے ہیں۔ حضرت علی ؑ نے فرمایا تھا : اتقوا ابواب السلطان، یعنی حاکم کے دروازوں پر جانے سے بچو۔ ایسے علمائے دین نے اس بات کا پورا خیال رکھا۔ وہ حاکم کے دروازے پر جانے کی بجائے خود حاکم بن گئے اور لوگوں کو اپنے دروازے پر حاضری کا کہنے لگے۔

۲۔ عوام میں عمومی تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ گدی نشین، مذہبی رہنما یا عالمِ دین کاخدا اور دنیائے فانی کے درمیان ایک رابطہ موجود ہے۔ یہ خدا سے گناہوں کی بخشش کروانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ان کے پاس ایسی طاقت ہوتی ہے جو سماج میں دوسری طاقتوں کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے۔ علمائے دین خود بھی اپنے آپ کو اس طاقت سے مزین سمجھتے ہیں۔ انھیں پورا احساس ہوتا ہے کہ وہ ایسی ان دیکھی قوت کے مالک ہیں جو کم از کم ان حکمرانوں اور چھوٹے چھوٹے عہدہ داروں سے بہت بڑی ہے۔ اسی طاقت کے سہارے وہ سرکاری عہداران، دولت والوں اور حکمرانوں کی توجہ کا مرکز بنتے رہتے ہیں۔ اکثر حکمران جیسے بے نظیر، نواز شریف اور عمران خان وغیرہ درباروں پر حاضری دیتے رہے تاکہ ان پر اقتدار کے دروازے کھل سکیں۔ اقتدار کی طاقت کی حصول کے لیے انھیں خدا کے زمین پر نمائندوں کے پاس جانا پڑا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے پاس ایک ایسی ماورائی طاقت ہے جو ان کو طاقت ور کر سکتی ہے۔ حال ہی میں عمران خان نے ایک مذہبی گھرانے کی خاتون سے اسی وجہ سے شادی کی تاکہ اقتدار کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہٹ سکیں۔ یہاں ووٹ کی طاقت کو بارٹرکرنے کا تصور نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے خدا کی اپنی ایک بزرگ خاتون کو دی ہوئی طاقت سے اپنی طاقت کا حصول تھا۔

سماج میں دوسرا اہم طبقہ عہدے کے بغیر طاقت رکھنے والے دولت مند افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر سماج میں موجود دوسری طاقتوں کو بارٹر کر سکتے ہیں۔ دولت چوں کہ از خود ایک بہت بڑی قوت ہے اس لیے اس پر قابض ہونے والا شخص سماج کا طاقت ور فرد کہلانے لگتا ہے۔ ایک وقت تک دولت مند دوسروں کے طاقت کو اپنی پیسے سے خریدتا یا استعمال میں لاتا رہتا ہے، پھر وہ خود حکمران بننے کو ترجیح دینے لگتا ہے۔ پاکستانی سماج میں ایسے بہت سے حکمران تھے یا اب بھی موجود ہیں، جو پہلے دولت کو جمع کرنے میں کامیاب ہوئے، بعد میں وہ اسی دولت کے سہارے اقتدار کے ایوانوں میں چلے آئے۔ پاکستانی سماج میں پچھلی دو دہائیوں سے ایک رئیل اسٹیٹ بزنس مین نے حکمرانوں کو احساس دلایا ہے کہ وہ اس سے اپنی طاقت بارٹر کر سکتے ہیں۔

بارٹر کا یہ تصور چھوٹے عہدہ دار جن میں انتظامیہ، پولیس، عدلیہ وغیرہ شامل ہیں، میں زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے عہدہ دار پیسوں والوں کے اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں اور ان کو اپنی طاقت میں شریک کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ ان کی دولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔

وکیل یا صحافی بھی ایسی طاقت کو بارٹر کرنے کی صلاحیت رکھتا جو طاقت وروں کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں بڑے بڑے وکلا اور صحافی طاقتوروں سے بارٹر کرتے کرتے خود حکمران بن گئے۔ انھوں نے مناسب سمجھا کہ وہ اتنے طاقت ور ہو چکے ہیں کہ طاقت کے تبادلے کی اس روز روز کی تکلیف سے نجات حاصل کر کے خود حکمران بن جائیں۔

سماج کے اندر ایک طاقت اس طبقے کے پاس بھی ہوتی ہے جنھیں ہم اُٹھائی گیرا یا بد معاش کہہ سکتے ہیں۔ اُٹھائے گیرے طاقت وروں کی طاقت ہوتے ہیں۔ ان کو بھی احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی غنڈہ گردی کو بیچ کے طاقت خرید سکتے ہیں۔ ان کا دائرہ اثر بعض اوقات بہت چھوٹا بھی ہوتا ہے اور بعض اوقات بہت وسیع بھی۔ چند سال پہلے کراچی سے وابستہ ایک ایسے ہی ’ڈان‘ نے سیاست دانوں سے اپنے Nexus کو بے نقاب کر دیاتھا۔ ایسے اُٹھائی گیرے بعض اوقات خود سیاست دان یا دولت مند بن کے معزز انداز میں اپنی طاقت کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔

پاکستانی سماج چوں کہ زرعی معاشرہ پر قائم ہے اس لیے یہاں ابھی تک وڈیرہ کلچر قائم ہے۔ وڈیرے سے مراد ایسا طاقت ور شخص ہے جس پر بہت سے کمزور اپنا انحصار کرتے ہوں۔ یہ انحصار مالی، جانی اور عزت کا بھی ہوسکتا ہے۔ طاقت ور افراد ایسے وڈیروں سے اپنی طاقت کا بارٹر کرتے ہیں۔ اب تو شہروں میں بھی ایسا وڈیرہ کلچر قائم ہو چکا ہے، جو چھوٹی چھوٹی طاقتوں کے لیے بہت کام کرتا ہے۔

ہر سماج میں ایک حتمی طاقت (Ultimate Power) بھی ہوتی ہے۔ یہ طاقت، سماج میں عمل آرا اس نظام کو پوری طرح سمجھ رہی ہوتی ہے۔ صرف سمجھتی ہی نہیں بلکہ اسے استعمال کرنے کا ہنر بھی جانتی ہے۔ پاکستانی سماج میں اسے عسکری طاقت کے طور پر پہچانا جا سکتا ہے۔ یہ طاقت کے ان چھوٹی طاقتوں کے ذریعے اپنے بیانیوں کو نافذ کرتی ہے۔

سماج کی ’’سماجیت‘‘ کو سمجھنے کے لیے ان طاقتوں کو پہچاننا بہت ضروری ہے۔ ہر سماج میں ایک حتمی طاقت (Ultimate Power) بھی ہوتی ہے۔ یہ طاقت، سماج میں عمل آرا اس نظام کو پوری طرح سمجھ رہی ہوتی ہے۔ صرف سمجھتی ہی نہیں بلکہ اسے استعمال کرنے کا ہنر بھی جانتی ہے۔ پاکستانی سماج میں اسے عسکری طاقت کے طور پر پہچانا جا سکتا ہے۔ یہ طاقت کے ان چھوٹی طاقتوں کے ذریعے اپنے بیانیوں کو نافذ کرتی ہے۔

فوکو کے مفہوم میں ان چھوٹی طاقتوں کے ذریعے عوام کے ذہنوں کو مسخر کیا جاتاہے، ان پر اپنا بیانیہ نافذ کیا جاتا ہے۔

پاکستانی سماج کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم تاریخ میں جھانکتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ مذہبی تصورات اور علمائے دین نے عسکری طاقتوں کے بیانیوں کو پوری طرح طاقت فراہم کی۔ جن اشخاص نے دولت کا اتکاز کیا، ان کے لیے عسکری ہمدردیاں موجود رہیں۔ یوں پاکستانی سماج میں طاقت اور علم کے ساتھ ساتھ حکمرانوں اور چھوٹی طاقتوں کابھی گٹھ جوڑ (Nexus) رہا ہے۔ عوام جن کے پاس کسی قسم کی کوئی طاقت نہیں ہوتی، اس طاقت کے کھیل کو پہچاننے کی صلاحیت سے بھی محروم کر دیے جاتے ہیں۔

  • قاسم یعقوب ممتاز اردو شاعر، نقاد اور رسالہ "نقاط” کے مدیر ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں درس و تدریس سے وابسطہ ہیں۔ اب تک ان کی دس سے زیادہ کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں۔
  • جواب دیں

    آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے