بام جہاں رپورٹ
اسلام آباد، جون 25: سول سو سائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے گلگت بلتستان میں خواتین اور بچیوں کے خلاف بڑھتے ہوےٗ جنسی و جسمانی تشدد اور قتل کے واقعات کے خلاف بروز جمعہ ۲۵ جون کو نیشنل پریس کلب اسلام ٓاباد کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا ۔
اجتجاج کرنے والوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف مطالبات درج تھے۔ ان مطالبات میں مجرموں کو سزا دلانے، گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی کرنے، حکومتی عہدہ داروں کو اپنی ذمہ داری نبھانے اور عملی اقدامات اٹھانے شامل تھے ۔
شرکاء نے مطالبات کے ماننے تک احتجاج جاری رکھنے کا عزم کیا ۔
احتجاج کرنے والوں میں سے ایک نے بام جہاں کو بتایا کہ حکومت اور فیصلہ ساز اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان سنگین واقعات کی روک تھام کے لیے قانون سازی کریں ۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کی حکومت کو چاہیےٗ کہ پاکستان کی پارلیمینٹ نے خواتین کے تحفظ کے حوالے سے جو قانون 2016 میں منظو ر کیا تھا اسےگلگت بلتستان اسمبلی سے منظورکرواکے اس پر فلفور عمل درآمد کرایا جایےٗ۔ خواتین پر گھریلو تشدد اور عزت کے نام پہ کیے جانیوالے قتل سے نمٹنے کے لیے قوانین بنائے ۔
ان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ تشدد، ہراسانی اور قتل کے واقعات کی روک تھام کے لیے مانیٹرنگ سیل بنائے اور ہیلپ لائن قائم کریں اور واقعات کی قانونی تقاضوں کے مطابق تحقیقات کرائیں۔
انہوں نے کہا کہ ۲۰۱۵ میں خواتین کے ملازمت کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کے واقعات کے روک تھام کے حوالے سے گلگت بلتستان کی اسمبلی نے قانون کی منطوری دی تھی لیکن اس پر عمل درآمد کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ حکام فی الفور قوانین بنائے اور محتسب کو تعینات کرئے ۔
بجٹ میں صنفی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہو ئے فنڈز مختص کریں ، اور مختلف شعبوں میں مثلا جینڈر پالیسی ، سوشل سیکیورٹی ، خواتین کے حقوق کے حوالے سے ریسرچ ،آمدن بڑھانے کے لیے گرانٹس ، پولیس سٹیشن میں خواتین کے لیے ڈیسک قائم کرنے اور سوشل ویلیفیر کے لیے کام کریں
اس کے علاوہ انسانی حقوق اور وقار نسواں کے لیے کام کرنے والے کمیشنز کے نفاذ کے لیٗے قوانین کی منظوری دیں ۔
ایک خاتون سیاسی کارکن کا کہنا تھا کہ کسی بھی ریاست میں بسنے والے شہریوں کو بلاامتیاز انصاف فراہم کرنا ، برابری اور جان و مال کا تحفظ ان کی بنیادی حقوق اور ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں سماجی ناانصافیوں، اورصنفی امتیازات کی وجہ سےخواتین ملک کی آبادی کا نصف حصہ ہونے کے باوجود اپنے آئینی و قانونی حقوق سے محروم ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے ملک بھر میں خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد، جنسی ہراسانی، جنسی حملہ اور عزت کے نام پر قتل کے واقعات میڈیا اور خاص کر سوشل میڈیا پر زیادہ گردش کر رہی ہیں۔
ابھی اسی مہنے میں تین اضلاع ہنزہ ، غذر اور گلگت سے چار مبینہ خود کشی کے واقعات سامنے ٓاےٗ جس سے پورے علاقے میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گیٗ اور سیاسی و سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر زبردست احتجاج کیا گیا اور ان واقعات کی شفاف تحقیقات کرانے اور اصلی حقائق کو سامنے لانے پر پر زور دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں پولیس نے تین مبینہ خود کشی کے واقعات کی تحقیقات کی اور یہ انکشاف کیا کہ یہ واقعات دراصل قتل اور تشدد ہیں جو کہ خاندان کے افراد کی جانب سے اپنے ٓاپ کو بچانے کی خاطر خود کشی کا رنگ دیا گیا تھا۔
پولیس کی ابتدایٗ تحقیقات کے مطابق ضلع غذر کے تحصیل اشکومن میں چودہ سالہ بچی کو ان کے قریبی رشتہ دار نے جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا ہے۔
ہنزہ گوجال کے گاوٗں شمشال میں شادی شدہ خاتون کو سسرالیوں نے مبینہ طور پر قتل کر دیا ہے ۔ پولیس نے ابتدایٗ تفتیش کے بعد سسر اور دیور کو ۱۵ روزہ ریمانڈ پر جیل بھیجدیا ہے۔
ایک اور لڑکی کو اسکے بھائی نے قتل کر کے خودکشی قرار دیا ہے۔
لیکن خواتین اور بچیوں کے ساتھ پیش آنیوالے درندگی کے واقعات کو روکنے کے لیے حکومت کو ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہیں ۔
One thought on “گلگت بلتستان: خواتین کے خلاف بڑھتے ہوے تشدد، قتل اور جنسی زیادتیوں کے خلاف اسلام آباد میں احتجاج”
نجی محفلوں کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن ۔۔
کیا خواتین یامردوں کو عوامی اجتماعات میں مخلوط ناچ گانے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟