بام جہان رپورٹ
ہنزہ، جون ۲۶۔ ابھی ہنزہ کے عوام گزشتہ تین ہفتوں کے دوران پے در پے واقعات کے نتیجے میں دو نوجوان شادی شدہ خواتین اور تین اسکول کے بچوں کے افسوسناک موت کے صدمے سے نہیں نکلے تھے کہ ایک اور اندوہناک واقعہ نےہنزہ اور نگر کی وادی کو غم میں ڈبو دیا۔
جمعہ کی رات نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ڈگری کالج ہنزہ کے نوجوان اسسٹینٹ پروفیسر اورسماجی کارکن حبیب اللہ کو ہلاک کیا۔ جبکہ ان کے ساتھ گاڑی میں سوار ان کے دوست راحت کریم زخمی ہوگئے۔
پولیس ذرائع کے مطابق واقعہ جمعہ کو رات دس بجے کے قریب قراقرم یونیورسٹی ہنزہ کیپمس کریم آباد کے عقب میں لنک روڈ پر کھڑی کار میں بیٹھے نامعلوم افراد نے گولیاں چلا دی جس کے نتیجے میں ۳۵ سالہ اسٹینٹ پروفیسر حبیب اللہ ساکن کریم آباد کو گولیاں لگیں۔ انہیں ہسپتال منتقل کرتے ہوئے راستے میں زخموں کی تاب نہ لا کرجان بحق ہوگئے ۔
حبیب کو ہفتہ کے روز ان کے آبائی قصبہ کریم آباد میں سینکڑوں افراد کی موجودگی میں سپرد خاک کیا گیا ۔
اس موقع پر ضلع ہنزہ اور نگر اور دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا اورپولیس سے مطالبہ کیا کہ واقع میں ملوث مجرموں کو فورأ گرفتار کرکے سخت سے سخت سزا دی جاےٗ۔
ہنزہ پولیس کے ایک آفیسر نے کہا کہ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے ۔لیکن وہ جلد مجرموں تک پہنچ جایٗنگے ۔ انہوں نے تدفین کے موقع پہ لوگوں کو بتایا کہ ملزمان مقامی ہیں اور کچھ شواہد مل گےٗ ہیں جن کی مدد سے مجرموں تک پہنچنا اآسان ہے۔
انہوں نے کہا کہ واقع میں ملوث ملزمان کو پکڑنے کےلئے مختلف ٹیمیں تشکیل دی گییٗ ہے اس کے علاوہ مرحوم کے زخمی دوست سے ابتدایٗ پوچھ گچھ کے علاوہ دیگر طریقوں سے بھی معلومات اکٹھا کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کیا کہ وہ بہت جلد مجرموں کو پکڑنے میں کامیاب ہو جائیگے۔پولیس حکام نے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ متوفی پروفیسر کے قاتلوں کو پکڑنے میں ان کی مدد کریں۔ تاکہ پرامن ہنزہ میں اس قسم کے واقعات نہ ہونے پایٗیں۔
حبیب اللہ گزشتہ نو سالوں سے گلگت بلتستان کے مختلف کالجوں میں بحیثیت لیکچر رکمیسڑی کا مضمون پڑھا رہے تھے ۔ وہ بہت اچھے انسان اور حلیم الطبہ شخص تھے ۔
سوشل میڈیا صارفین نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوے پولیس کی کارکردگی پر سوالات اٹھاےٗ ہیں۔
رضوان کریم قلندر نے اپنے فیس بک پیج پہ لکھا ہے کہ سوشل میڈیا صارفین کو اپنے الفاظ کا دانشمندی سے انتخاب کرنا چاہیےٗ۔ ” اپنے آپ کو ان کے خاندان کی جگہ رکھ کر ان کے دکھوں کو سمجھنے کی کوشش کریں ، خاص طور پر اس کی والدہ جس نے ایک پیارے بیٹے اور اس کی بہن بھائیوں کی جگہ جنہوں نے اس خوفناک واقعے میں ایک پیارے بھائی کھو چکے ہیں۔ اس کے بچپن کے دوستوں کے بارے میں سوچو جو اپنے ساتھی سے محروم ہوگئے ہیں۔ ایک ایسے نیک دل استاد کے بارے میں سوچئے جس نے اپنے قلیل زندگی کے دوران سیکڑوں افراد کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ علاقائیت کی درجہ بندی کے لئے "جرائم سے پاک” ہونے کی دوڑ میں، لوگوں کے جذبات کو مت کچلےٗ۔”
رصوان نے مزید لکھا ہے ” حبیب کو جس طرح اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا وہ ایک غیر معمولی بات ضرور ہے۔ انتظامیہ کو مقامی لوگوں کی مدد سے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مجرموں کو پکڑا جائے اور انھیں سزا دی جائے۔”
سوشل میڈیا کارکن شاہد ندیم نے لکھا ہے کہ پولیس ابھی تک خاموش ہے. عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات لینے والی پولیس اور ڈپٹی کمشنر کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ عوام کو حالات اور تحقیقات میں پیش رفت سے آگاہ کریں۔
مگر گلگت بلتستان پولیس کی مجرمانہ خاموشی، تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہ ہونا اور اس سے بھی عوام کو اعتماد میں نہ لینا قابل مذمت ہے۔
چونکہ ہنزہ جیسے پرامن علاقے میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کا بہیمانہ دن دھاڑے بازار میں قتل ہوا ہے اس لئے یہ ایک عوامی مسٗلہ بن گیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ نہ صرف ہنزہ کے عوام بلکہ پورے گلگت بلتستان کے عوام اس کیس کی طرف دیکھ رہے ہے ۔ ابھی تک محکمہ پولیس اور ڈپٹی کمشنر کی خاموشی معنی خیز ہے. جواب دینا ان کے فرائض میں شامل ہے کہ دن دھاڑے ایک نوجوان پرامن اور پر ہجوم جگہ میں کیسے قتل ہوا۔قاتل ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہو سکا ہے اور خدانخواستہ ثبوت مٹانے کی کوشش کی گئی تو اس کا ذمے دار کون ہوگا؟
سابق امیدوار گلگت بلتستان اسمبلی ریاض حسین نے لکھا ہے کہ نوجوان حبیب اللہ کا دن دھاڑے قتل میں کوئی پیش رفت نہ ہونا سوالیہ نشان ہے۔ ہنزہ جیسے چھوٹے سے علاقے اور کریم آباد کے ایک چھوٹے محلے میں قاتل کہاں گیےٗ؟۔ جبکہ موبائل چوری اور شراب کی بوتل ایک گھنٹے میں پکڑی جاتی ہے ۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے جلد از جلد قاتلوں کو پکڑاجائے اور وجوہات منظر عام پہ لائی جانی چاہئے ورنہ شکوک و شبہات جنم لے سکتے ہیں۔
براڈ کاسٹ صحافی اور وی لاگر غلام الدین نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوےٗ اسے ہنزہ جیسے پرامن وادی کے امن کو نقسان پہنچانے کی سازش قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک پڑھے لکھے نوجوان استاد کا اس بہمانہ طریقے سے قتل پورے معاشرے کے لیےٗ بہت بڑا نقصان ہے ۔ انہوں نے پولیس سے مظالبہ کیا کہ اس کے مختلف پہلووں پر تحقیقات ہونا چاہےٗ اور ایسے جرایم کا سدباب ہونا چاہےٗ۔
انہوں نے کہا کہ ۲۰ گھنٹہ گزرنے کے باوجود ملزموں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا۔
سماجی کارکن اور ریسرچر ارم عابدہ نے اپنے فیس بک پیج پہ مرحوم استاد کے خاندان سے اظہار افسوس کرتے ہوےٗ لکھا ہے کہ انن کے دکھ کو میں بخوبی اندازہ کر سکتی ہوں کیونکہ میں انہیں بہت قریب سے جانتی ہوں۔ ایک سال کے اندر اس خاندان نے کچھ سال پہلے ایک بیٹا روڈ ایکسڈینٹ میں کھویا اور ایک داماد کووڈ کے شکار ہوےٗ۔ اور اب سر حبیب کو کھویا جن کی شخصیت ان کی زندگی سے بہت بڑا تھا۔
"وہ نہ صرف ایک بہترین استاد تھے بلکہ اسکول سے باہر بھی بہت اچھے انسان کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کی مشکراہٹ، جوش و جزبہ اور انکساری کا کویٗ ثانی نہیں تھا۔ وہ اپنے شاگردوں کی مدد کے لیےٗہر وقت تیار رہتے تھے۔ وہ بہت گرمجوشی سے ملتے اور سلام کا جواب دیتے خواہ وہ کھیل کے میدان میں ہو یا سر راہ ملے۔”
ارم نے مزید لکھا ہے کہ جب وہ عظا آباد کے سانحہ پر اپنا تھیسز لکھان زاہ رہی تھی تو پرہفیسر حبیب نے ان کی بہت مدد کیں۔ جب گلگت بلتستسان کی خواتین کے حقوق کے لنے ایک پیٹیشن کے ڈریعے دستخطی مہم شروع کیں تو سر حبیب پہلے شخص تھے جنہوں نے اس پہ دستخط کےٗ۔
ان کے بارے میں جو کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے ان کی شخصیت ان سے کہیں بڑا تھا۔ میری دعا ہے کہ ان کے خاندان کو انصاف ملے اور ہنزہ میں اس قسم کے جراٗیم ایندہ نہ ہوں۔
ایک اور ساشل میدیا صارف عبدالرفیع نے لکھا ہے کہ ایک استاد جو قوم کے مستقبل کے معماروں کو بناتا ہے کا اس طرح زندگی سے محروم کرنا نہ صرف ان کے خاندان کے لےیٗ بلکہ پورے قوم کے لیےٗ ناقابل تلافی نقصان ہے۔