عنایت ابدالی، بیورو چیف
خبر ہے کہ گلگت بلتستان حکومت آج گلگت کے مہنگے ترین ہوٹل میں یوتھ پالیسی کے حوالے سے مختلف سٹیک ہولڈرز کے ساتھ ورکشاپ کا انعقاد کیا۔
نوجوانوں کےلیے پالیسی مرتب کرتے ہوئے صرف این جی آوز کے افراد کو مدعو کیا گیا تھا جو کہ اس حکومت کی غیر سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
کیا نوجوان صرف این جی آوز میں موجود ہیں؟ کیا گلگت بلتستان کے مختلف طلبا تنظیموں کے نوجوان اس ورکشاپ میں شریک ہونے کے قابل نہیں؟
کیا حکومت نے پالیسی سازی کے ورکشاپ میں گلگت بلتستان اسمبلی میں موجودہ سیاسی جماعتوں کے طلبا تنظیموں کے نمائندوں کو مدعو کیا تھا؟
یقیناً وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اس حکومت میں پالیسی وہی لوگ بناتے ہیں جو خود سیاسی عمل سے نہیں گزرے ہیں۔ سلیکٹرز کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے کبھی بھی سیاسی اور پالیسی سازی کے عمل میں نوجوانوں کو شریک نہیں کریں گے۔
کوآرڈینیٹرز اور مشیران کے نام پر سیاسی بےروزگاروں کو نوازا گیا۔سیاسی بےروزگاری کو کوآرڈینیٹر اور مشیر لگانے کے بجائے اپنی جماعت سے ہی یوتھ اور طلبا تنظیموں کے رہنماؤں کو آگے لاتے تو آج کم از کم نوجوانوں کے لیے پالیسی مرتب کرتے ہوئے نوجوانوں کو اس ورکشاپ میں مدعو کرتے۔
این جی آوز کے نمائندوں کے ذریعے نوجوانوں کے لیے پالیسی بنانے کے عمل کو ہم مسترد کرتے ہیں اور ہم وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ نوجوانوں کے حوالے سے پالیسی مرتب کرنے سے پہلے گلگت بلتستان کے مختلف طلبا تنظیموں کے نمائندوں کو یا کم از کم گلگت بلتستان اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں کے طلبا تنظیموں اور یوتھ کے نمائندوں کو اس عمل میں شریک کریں ورنہ ہم اس این جی آوز ذدہ پالیسی کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گے۔