Baam-e-Jahan

صحافی احمد نورانی کی اہلیہ کی گاڑی پر حملہ

Ahmad Noorani attack

بشکریہ: بی بی سی اردو


معروف صحافی احمد نورانی کی اہلیہ صحافی عنبرین فاطمہ کی گاڑی پر نامعلوم شخص نے حملہ کیا ہے جبکہ پولیس اس واقعے کی تفتیش کر رہی ہے۔

عنبرین فاطمہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی گاڑی پر یہ حملہ گذشتہ شب ساڑھے آٹھ بجے کے قریب لاہور میں ان کے گھر کے قریب ہوا اور نامعلوم حملہ آور انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔

عنبرین فاطمہ گذشتہ 16 برس سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں اور اس سے پہلے انھیں کبھی اس قسم کے واقعے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

تاہم چار برس قبل ان کے شوہر صحافی احمد نورانی پر دارالحکومت اسلام آباد میں حملہ کیا گیا تھا۔ اسلام آباد میں زیرو پوائنٹ کے قریب تین موٹر سائیکل سوار مسلح افراد نے زبردستی ان کی گاڑی کو روکا اور پھر اُنھیں گاڑی سے نکال کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

عنبرین فاطمہ کے مطابق ان کے شوہر اس وقت بیرون ملک ہیں۔

یاد رہے کہ صحافی احمد نورانی حال ہی میں ایک بار موضوع بحث اس وقت بنے جب انھوں نے فیکٹ فوکس نامی ویب سائٹ پر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے منسوب آڈیو کلپ اپ لوڈ کیا اور خبر شائع کی۔ اس آڈیو میں دو افراد کی گفتگو سنی جا سکتی ہے، گفتگو کرنے والے دونوں افراد اپنی شناخت ظاہر نہیں کرتے مگر وہ گفتگو کے دوران ملک کے سابق وزیراعظم ‘نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو سنائی جانے والی سزاؤں کے لیے ’دباؤ ڈالنے’ کی بات کر رہے ہیں۔

عنبرین فاطمہ نے بتایا کہ وہ اپنے ایک سالہ بیٹے اور ڈھائی سالہ بیٹی اور بہن کے ہمراہ گھر سے گاڑی پر نکلی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’معمول میں تو اس وقت میں روزانہ واک کر رہی ہوتی ہوں لیکن بچوں کو بہلانے کے لیے میں نے انھیں قریبی ریسٹورنٹ میں لے جانے کا سوچا۔ ابھی میں اپنے گھر کی گلی جو کہ تاج پورہ سکیم میں موجود ہے کی ساتھ والی گلی کی جانب مڑی ہی تھی کہ ایک نامعلوم شخص نے دائیں جانب سے آکر میری گاڑی کی وِنڈ سکرین کو ہٹ کیا۔‘

ambreen

عنبرین نے بتایا کہ نامعلوم شخص نے تین سے چار بار کسی چیز سے میری گاڑی کو ہٹ کیا اور ونڈ سکرین کی کرچیاں ٹوٹ کر اندر آ گریں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے دونوں بچے اور بہن پیچھے بیٹھے تھے اور جیسے ہی یہ واقعہ پیش آیا ’میں نے اپنے ہاتھ آنکھوں پر رکھے اور بہن اور بچوں کو پکارا جنھیں ان کی بہن نے نیچے جھکا لیا تھا۔‘

عنبرین فاطمہ بتاتی ہیں کہ اس موڑ پر ’میں نے اپنی گاڑی کو بالکل آہستہ کر دیا تھا تاکہ میری بیٹی آگے آ کر بیٹھ سکے لیکن یہ حملہ آور کہاں سے آیا اور پھر کہاں چلا گیا مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔‘

بچوں کو گھر چھوڑنے کے بعد عنبرین فاطمہ اپنے والد کے ہمراہ پولیس سٹیشن گئیں۔

پولیس نے ان کی گاڑی کا جائزہ لینے کے بعد ایف آئی آر درج کی اور پولیس کی جانب سے اس واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔

عنبرین کی جانب سے درج ایف آئی آر میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی کسی سے کوئی رنجش نہیں اور نہ ہی کسی پر کوئی شبہ ہے۔ عنبرین فاطمہ معروف اخبار روزنامہ نوائے وقت اور ویب سائٹ ’ہم سب‘ کے لیے کالم لکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سے پہلے ان کے ساتھ ایسا کبھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

انھوں نے بتایا کہ پولیس ابھی ان سے پوچھ گچھ ہی کر رہی ہے تاہم انھیں کچھ یاد نہیں کہ حملہ آور کا حلیہ کیا تھا اور دھمکیاں دیتے ہوئے اس کا لہجہ کس علاقے کے لوگوں سے ملتا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے