عزیز علی داد
کچھ ہفتے پہلے میں اپنے نئے گھر کا رنگ و روغن کرارہا تھا۔ دیواروں پر مختلف قسم کے رنگ لگے ہوئے تھے۔ ایک دن میری چھوٹی بیٹی دوڑتی ہوئی آئی اور کہنے لگی کہ وہ مجھے دیوار کے ساتھ ایک لیڈی برڈ (سرخ بھنورا) دکھاۓ گی۔ میں اس کے ساتھ عمارت کے اندر چلا گیا۔ وہ اورنج کلر کے دیوار کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی وہ لیڈی برڈ وہ خود ہی ہے۔ اس نے مجھے تصویر لینے کو کہا۔ تصویر دیکھی تو واقعی لیڈی برڈ لگ رہی تھی۔ میں تو اپنی تخیل کی غربت پر شرمندہ بھی ہوا اور اس کے اسباب کے متعلق سوچنے لگا کہ ہم لوگوں میں تخیل کی کیوں کمی ہے؟ ہم لوگوں کی جمالیات اتنی محدود ہوتی ہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ کلر میچنگ یا رنگ کی وجہ سے روشنی اچھی ہونے کی بات کرتے ہیں۔ مگر ہم اپنے آپ کو ان رنگوں کے اندر نہیں دیکھ سکتے اور نہ ہی اپنے کردار کوان رنگوں کے اندر ڈھال کے دیکھ سکتے ہیں۔
شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بالغ ہونے تک اور پھر عملی زندگی شروع کرکے ہمارے اندر حقیقت اتنی در آتی ہے کہ ہم میں تخیل کے لیے گنجائش نہیں رہتی اور اگر گنجائش ہو بھی تو ہم تخیل جیسی غیر مرئی شے پر وقت ضائع کرنے کی بجائے مرئی، مادی اور دکھاوے کی چیزوں پر اپنی توانائی خرچ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک نئی دنیا کے متعلق نہ کوئی تصور پیدا کرسکتے اور نہ ہی کوئی نئی بات پیدا کرسکتے ہیں۔ برخلاف بالغوں کے بچوں میں تخیل کی بلا کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی حد سے زیادہ تربیت نہیں ہو چکی ہوتی ہے۔ لہذا ان میں تصور کرنے کی صلاحیت اپنی پوری طاقت کے ساتھ کارفرما ہوتی ہے۔ ہمارے گھر، معاشرے اور سکول، مسجد سے لیکر یونیورسٹی میں تربیت اس طرح کی ہوتی ہے کہ ہم میں تصور کرنے اور تخیل کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ علم سے زیادہ طاقتور تخیل ہے۔ وہ لوگوں کے ذہنوں میں علم کو ٹھونسنے کی بجائے تخیل کی پرورش کرنے کی بات کرتا ہے۔ وہ والدین کو تاکید کرتا ہے وہ اگر اپنے بچوں کو ذہین بنانا چاہتے ہیں کو ان کو افسانوی کہانیاں سنائیں۔ اور اگر ان کو مزید ذہین بنانا ہے تو انھیں مزید پریوں کی کہانیاں سنائیں۔
ہمارے معاشرے میں ہر شعبے میں پستی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے نئی کہانیاں بنانے کی صلاحیت کھودی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس صلاحیت کو دوبارہ کیسے زندہ کرسکتے ہیں؟ اس کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ہمیں پہلے اس شخص کو ختم کرنا ہوگا جس کی تشکیل اس معاشرے، قبیلے، زبان، فرقہ، تعلیمی نظام اور دیگر عناصر نے کی ہے۔ ان کی تربیت کی وجہ سے ہی ہم ہم نہیں رہے، ہم کچھ بن گئے ہیں۔اس حیوان میں تخیل اور تصور کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ صرف حیوانوں میں تخیل کا فقدان پایا جاتا ہے۔ جب میں لندن میں فلسفے کے مضمون کا طالب علم تھا تو جرمن فلسفی فریڈرک نطشے کو پڑھ رہا تھا۔ وہ اپنی کتاب "بقول زرتشت” میں انسان کے اندر تین قسم کی بڑی تبدیلیوں کی بات کرتا ہے۔ یہ ایک طرح کی ذہنی تبدیلی ہوتی ہے جو زندگی کو پنپنے میں مدد دیتی ہے۔ ان تبدیلیوں کو وہ شیر،اونٹ اور بچے کی علامتی تفسیر کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ شیر اپنی طاقت کے ذریعے دوسرے جانوروں پر حکمرانی کرتا ہے۔ بلآخر وہ خود ہی اسی طاقت کا شکار ہوجاتا ہے اور کچھ سیکھ نہیں پاتا۔ اونٹ بیچارہ اپنے ماضی کی یاد اور حال کی ذمہ داریوں اور بغض کے بوجھ تلے تب جاتا ہے۔آخر میں اس میں کینہ شتر اور ماضی کے بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں رہتا ہے۔ ہم اس اونٹ کی طرح ہیں۔
ان کو کرداروں کو رد کرنے کے بعد نطشے کہتا ہے کہ انسانیت کا حتمی ہدف بچے کی طرح بننا ہے۔ پوچھا کیوں؟ تو جواب دیا انسانیت کو معصوم بچے کی طرح حیرت کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیئے۔ معصومیت کے بغیر حیرت ممکن نہیں اور حیرت کے بغیر علم ناممکن ہے۔ حیرت سے ہی علم کا آغاز ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ہم میں علم کم اور علم کا زعم زیادہ بھرا ہوا ہے اور معصومیت اور حیرت تو ندارد۔ میں سخت محنت کے باوجود نطشے کے اس نقطے کو سمجھ نہیں پایا مگر میری چھوٹی معصوم بچی مجھے یہ رمز سکھا گئی۔ کاش مجھ میں بھی اس جیسی معصومیت، تخیل اور حیرت موجود ہوتی۔ میں اتنا بھر گیا ہوں کہ اب مجھ میں کوئی نئی چیز داخل نہیں ہو پاتی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ایسے چیزوں کا سامنا کرنے دیں جو ہمیں ہم سے چھین لے اور ہمیں اپنے تعیقنات سے محروم کرکے اپنی ذات اور کائنات کو نئے سرے سے تصور کرنے کے اہل بنا سکے۔ یہ صرف تخیل سے ممکن ہے نہ چالاکی اور علم کے زعم سے۔