394

دیربالا میں کورونا کا ایک مریض چل بسا، اب تک چار مریضوں کی تصدیق

دیر بالا کے گاوں واڑی سے تعلق رکھنے والا شحص کو ریسکو 1122 نے قرنطینہ مرکز میں منتقل کیا۔وہ دو دنوں سے سینگور میں چپکے سےرہائش پذیرتھا۔


رپورٹ: گل حماد فاروقی


چترال : ضلع دیر بالا میں منگل کے روز کورونا وائرس سے ایک شخص کی موت۔ ایک اور مشتبہ مریض کو قرنطینہ میں منتقل کیا گیا۔ ضلع میں کرونا وائیریس کے کئی کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے۔ دیر بالا کے علاقہ واڑی میں ابھی تک کرونا وائریس کے چار مریضوں کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں سے آج صبح ایک مریض کا انتقال ہو گیا۔

واڑی سے تعلق رکھنے والے ایک اورشحص جو دو دن قبل چترا ل کے گاوں سینگور میں آکر رہایش پذیر تھے، کو ضلعی انتظامیہ نے ریسکیو 1122 کے ذریعے فوری طور پر نکال کر کامرس کالج میں قائم قرنطینہ مرکز منتقل کیا۔

چترال کے سیاسی اور سماجی حلقوں نے اس بات پر نہایت تشویش کا اظہار کیا کہ واڑی میں پہلے سے چار کیس کرونا پازیٹیو آچکے ہیں۔ جن میں سے ایک شحص کا انتقال ہو ا۔ انہوں نے سوال کیا کہ وہ کیسےانتظامیہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر سینگور پہنچ گیا۔ اگر اسی طرح چوری چپکے متاثرہ علاقوں سے لوگ کا آزادانہ نقل و حرکت جاری رہا تو یہ وباء چترال تک بھی پھیل سکتا ہے۔

علاقے کے لوگوں نےمطالبہ کیا کہ متاثرہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو قرنطینہ میں رکھے بغیر چترال میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیا جائے۔ ان کو پہلے چودہ دن تک قرنطینہ میں ٹہرا کر پھر ان کو جانے کی اجازت دی جائے۔

دریں اثناء معروف کرکٹر شاہد آفریدی بھی کل رات چترال کے تاریخی مقام نگر میں پہنچ چکے ہیں اور رات کو نگر کے شاہی قلعہ میں قیام کرنے کے بعد ممکن ہے کہ وہ آج دروش میں متاثرین میں امدادی سامان تقسیم کرے۔

واضح رہے کہ چترال ابھی تک کرونا سے محفوظ ہےمگر اس بات کا خطرہ ہے کہ اگرمتاثرہ علاقوں کے لوگوں کوبلا روک ٹوک کے یہاں داحل ہونے اور رہنے کیلئے کھلی چھٹی دی گئی تو یہاں بھی کرونا وائیریس کے پھیلنے کا حطرہ ہے۔

گزشتہ دنوں چترال ٹاؤن میں موجود قرنطینہ سینٹر سے بھاگ کر ایک نوجوان گرم چشمہ پہنچ گیا تھا ۔ اطلاع ملنے پر گرم چشمہ پولیس نے اسے دوبارہ گرفتار کرکے قرنطینہ سینٹر منقتل کیاتھا۔

گرم چشمہ کے نواحی گاؤں بگوشٹ سے تعلق رکھنے والا محمد ولی گجرانوالہ سے چترال پہنچا تھا اور قرنطینہ سینٹر میں داخل تھا ۔ گزشتہ دنوں وہ وہاں سے بھاگ کر گرم چشمہ پہنچا جس کی اطلاع گاؤں والوں نے بذریعہ والینٹر گرم چشمہ تھانے میں کر دیا تھا جس پر ایکشن لیتے ہوئے ایس ایچ او تھانہ گرم چشمہ نے اسے بذریعہ پولیس قرنطینہ سینٹر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دریں اثنا پاکستان پیپلز پارٹی کے صدربشیر احمد نے ایک بیان میں ضلعی انتظامیہ پر زوردیا ہے کہ قرنطینہ مراکز کو شہر سے باہر منتقل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ٹاؤن ٹو کے لوگ نہایت تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ وہاں محتلف ہاسٹلوں، ہوٹلوں اور سرکاری عمارتوں میں قرنطینہ مراکز قائم کئے گئے ہیں جن میں ان لوگوں کو ٹھراتے ہیں جو باہر سے آتے ہیں۔
بشیر احمد کا کہناہے کہ اکثر رات کے وقت ان قرنطینہ مراکز میں رہنے والے لوگ چھتوں پر گھوم پھر رہےہوتے ہیں جو تشویش ناک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی اس عمل سے ٹاؤن کے لوگوں تشویش میں مبتلا ہیں کہ اگر ان میں کوئی ایک بھی شخص کرونا وائیرس میں مبتلا ہے تو ان سے پورے شہر کے خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسرے صوبوں میں حکام نے شہر سے باہر قرنطینہ مراکز قائم کئے ہیں جو حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ بشیر احمدنے مزید بتایا کہ چترال میں بھی آبادی سے باہر سین لشٹ، سین، دولوموچ میں ایسے ہوٹل،تعلیمی ادارے اورسرکاری عمارتیں موجود ہیں جن کو قرنطینہ کے طور پر استعمال کئے جاسکتے ہیں۔
بشیر احمد نے ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ان قرنطینہ مراکز سے کو شہر سے باہر منتقل کیا جائے کیونکہ احتیاط میں عافیت ہے۔
واضح رہے کہ چترال میں قرنطینہ مراکز کامرس کالج، اس کے ہاسٹل، اور ایک سرکاری ہوٹل کےسمیت کئی نجی ہوٹلوں میں قائم ہیں مقامی ابادی نےمطالبہ کیا کہ ان مراکز کو گنجان آباد علاقوں سے باہر منقتل کیا جائے تاکہ ٹاؤن کے لوگ اس ممکنہ وباء سے محفوظ رہ سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں