عزیز علی داد

گلگت بلتستان میں حقیقت سے فرار

از: عزیزعلی داد کمزور سماج میں مصنوعی ذہانت (AI) انفرادی نفسیات کے کونے کھدروں میں مخفی خواہشات، خوابوں، محرومیوں اور فنتاسیاتی تصورات کو تصویری جامہ پہنائے گی اور یوں حقیقت...

وجاہت مسعود 200

ایک نازک موضوع پر کچھ محتاط خیالات

وجاہت مسعود


درویش کی معروضات پڑھنے والے جانتے ہیں کہ میں اپنے قلم کو سیاسی، معاشی اور سماجی موضوعات تک محدود رکھتا ہوں۔ خالص مذہبی مباحث کی کرید مجھے پسند نہیں۔ میری رائے میں صحافت کا منصب عقیدوں کی تبلیغ یا تنقیص نہیں۔ قانون نے ہر انسان کو عقیدے کے انتخاب کا انفرادی حق عطا کر رکھا ہے اور صحافی کا کام ہر انسان کی مذہبی آزادی کا غیرمشروط احترام یقینی بنانا ہے۔ تھامس جیفرسن نے کہا تھا کہ عقیدوں کے صحیح یا غلط ہونے کے فیصلے عدالتوں میں نہیں ہو سکتے۔ ایک فرد کا عقیدہ کسی دوسرے فرد یا گروہ پر نافذ نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ عقیدوں کے ناگزیر تنوع کا احترام کرتے ہوئے ریاستی معاملات میں ایسی اجتماعی فراست کو بروئے کار لانا چاہیے جس میں ہر شہری اپنے انفرادی عقیدے سے قطع نظر مساوی بنیادوں پر حصہ لے سکے۔ ہزاروں برس سے عقیدے کے نام پر خون کی ندیاں بہانے کے باوجود مذہبی اختلافات طے نہیں ہو سکے چنانچہ مذہبی رواداری ہی امن اور آشتی کا نسخہ ہے۔ رواداری کے چار زاویے ہیں، حقوق اور رتبے کی مساوات، مختلف ہونے کا حق (تنوع)، باہم احترام اور بلا امتیاز میل جول۔ میری رائے میں ہر مذہب کا منصب اپنے پیروکاروں کا اخلاقی ارتفاع ہے اور کوئی مذہب کسی غیرمنصفانہ فعل کی تائید نہیں کرتا۔ چنانچہ زیر نظر تحریر کا مقصد کسی عقیدے کی اہانت یا تائید نہیں بلکہ کچھ ایسے امور پر توجہ دلانا ہے جو بدیہی طور پر مذاہب کے اساسی اصولوں کا حصہ نہیں بلکہ تاریخی ارتقا کے نتیجے میں منصہ شہود پر آئے ہیں۔

قدیم زمانے میں مذہب ہی علم، قانون اور اقتدار کا منبع تھا۔ چنانچہ تمام منضبط مذاہب میں پیشوائیت کا ادارہ قائم ہوا جو فیصلہ سازی میں اختیار کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اقتدار کا حصہ تھا۔ کسی مذہب کے قابل صد احترام بانیان نے پیشوائیت کی تعلیم نہیں دی۔ پیشوائیت ریاست اور معاشرے میں مذہبی اختیار کی نمائندگی کے لئے وجود میں آئی اور اختیار کی ناگزیر حرکیات کے عین مطابق اس میں تشریح کے نام پر اختلاف اور تصادم کے زاویے بھی پیدا ہوئے۔ سچائی پر حتمی اجارے کے غیرجوابدہ دعووں سے پیشوائی تقدیس اور عوام پر بالادستی نے جنم لیا۔ تقدیس کا تصور سوال کے حق کی نفی ہے۔ پندرہویں صدی میں نشاة ثانیہ دراصل قدیم روایات، اقدار اور اداروں پر سوال اٹھانے کی تحریک تھی۔ نشاة ثانیہ سے پیدا ہونے والے نئے علمی تصورات نے دریافت اور ایجاد کا راستہ کھولا چنانچہ پیشوائیت کا علم اور اوامر و نواہی پر غلبہ کمزور پڑنے لگا۔ واضح رہے کہ سائنس نے پیشوائیت سے سند جواز کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ سائنسی علوم اور ایجادات نے پیشوائیت کو ترغیب دی کہ اپنی تفہیم اور تشریح کو سائنسی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک نئی دنیا وجود میں آ رہی تھی۔ جہاں کوانٹم تھیوری نے حتمیت کے تصور پر ضرب لگائی وہاں غیر مطلوبہ حمل کے خدشے سے نجات نے نجی زندگی کی اقدار بدل دیں۔ فرئیڈ، ڈرخائم، ہیولاک ایلس، رائخ اور کنزے کے خیالات روزمرہ زندگی کا حصہ بننے لگے۔ 1957میں وولفنڈن رپورٹ نے کسی خاص تصور معاشرت کی ترویج کو قانون کی منشا سے خارج کر دیا۔ 60ءاور 70ءکی دہائیوں میں عورتوں کے حقوق اور جنسی آزادی کی تحریکوں نے انفرادی زندگی کے خدوخال ہی بدل ڈالے۔ یہ وہی عہد تھا جب تیسرے صنعتی انقلاب نے عالمی معیشت میں جوہری تبدیلی پیدا کی اور تقریر، تحریر اور تنظیم کی تین آزادیاں دراصل اظہار کی یک نکاتی آزادی میں ڈھل گئیں۔

صدیوں سے تمام مذاہب کے پیشوائی اداروں میں جنسی ہراسانی کی روایت موجود رہی تھی لیکن بوجوہ اس پر سوال اٹھانا مشکل تھا۔ 80 کی دہائی میں مذہبی اداروں میں جنسی استحصال کی شکایات سامنے آنے لگیں۔ اس میں کسی مذہب کی تخصیص یا بطور ایک گروہ کے تمام پیشواؤں پر الزام تراشی نہیں تھی۔ الزام یہ تھا کہ تمام مذاہب کے پیشوا اپنے عقائد کی نیک نامی پر حرف آنے کے ڈر سے مذہبی اداروں میں بچوں اور بالغوں کے ساتھ جنسی ہراسانی اور زیادتی سے صرف نظر کرتے آئے ہیں۔ اس میں مذہبی ریاکاری کا پہلو بھی شامل تھا اور اپنے معاشرتی رسوخ کا ناجائز استعمال بھی۔ جنسی استحصال کو صرف مذہبی اداروں سے منسوب کرنا درست نہیں لیکن یہ نکتہ بہرصورت قابل غور تھا کہ یہ ادارے اپنی اساس میں اخلاقیات کے علمبردار تھے اور ان مقامات پر جنسی ہراسانی کے عواقب کہیں زیادہ قابل مذمت تھے۔ تقدیس کی آڑ میں جنسی استحصال کے متاثرہ افراد میں خود الزامی، ذہنی دباؤ، بعد از سانحہ نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ، منشیات کا استعمال، معاشرتی بے گانگی، احساس اہانت، جنسی پیچیدگیاں اور خود کشی کے رجحانات سے لے کر بالغ عمری میں دوسرے افراد کے انتقامی جنسی استحصال تک کی علامات دیکھی گئی ہیں۔

2001 میں پوپ جان پال دوم نے چرچ میں جنسی زیادتی کو یسوع مسیح کی تعلیمات سے یکسر انحراف قرار دیتے ہوئے متاثرین سے معافی مانگی۔ 2008ء میں پوپ بینیڈکٹ نے جنسی زیادتی کے متاثرہ افراد سے مل کر اس برائی کی شدید مذمت کی۔ 2018 میں پوپ فرانسس نے اس ’تاریخی المیے‘ پر گہری ندامت کا اظہار کیا۔ یہ برائی صرف مسیحی چرچ تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے قریب تمام مذاہب کے پیشوا اس جرم کا حصہ رہے ہیں۔ ستمبر 2021 میں مذہبی مقامات پر بچوں سے جنسی زیادتی کے خلاف برطانوی تحقیقی ادارے نے 38 اہم مذاہب کے بارے میں رپورٹ کیا کہ اعلیٰ مذہبی رہنماؤں کی اکثریت ایسے واقعات سے چشم پوشی کی مرتکب ہوتی ہے، ان واقعات میں متاثرہ فرد ہی کو الزام دیا جاتا ہے، معاشرتی بدنامی کی دھمکی اور خوف و تحریص کے دیگر ہتھکنڈے آزمائے جائے ہیں۔ مذہبی اداروں میں جنسی استحصال کی غیر جئانبدارانہ تحقیق کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، ایسے الزامات کو مذہب کی توقیر پر حملوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس قابل مذمت روایت کی مزاحمت کے لئے تین اجمالی تجاویز دیکھیے۔ قانونی طور پر جرم قرار دیے گئے فعل کو مذہب سے الگ سمجھا جائے۔ مذہبی پیشواؤں کو مذہب کے اساسی احترام سے الگ مظہر سمجھا جائے۔ مذہبی اداروں تک ریاستی اور معاشرتی رسائی کو زیادہ شفاف بنایا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں