حاشر ابن ارشاد
پاکستان سے اوپر صرف ایل سیلواڈور، گھانا اور تیونس ہیں۔ سادہ الفاظ میں یہ ان ملکوں کی فہرست ہے جن کے بارے میں یہ توقع ہے کہ وہ اس سال اپنے قرضے کی قسطیں نہیں دے پائیں گے اور دیوالیہ ہو جائیں گے۔ دیوالیہ ہونے کے بعد کیا ہوتا ہے، اس کی ایک جھلک آپ کچھ سال پہلے یونان اور اس سال سری لنکا میں دیکھ چکے ہیں۔ ہمارے سارے مسئلے ایک طرف اور معاشی مسئلہ ایک طرف۔ اس کے باوجود ان معاشی اشاریوں کی نہ کسی کو خبر ہے نہ کسی کو پروا۔ عوام سستے جذباتی نعروں پر فیصلے کر رہی ہے اور اہل اقتدار بے سر و پا بیانیے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ قحط دور نہیں جب لوگ عشق کرنا بھول جائیں گے۔
کیا اس قیامت کو ٹالا جا سکتا ہے؟ بہت مشکل ہے پر ناممکن نہیں ہے۔ شارٹ ٹرم اقدامات کے ساتھ دور کے فیصلے کرنے پڑیں گے۔ تمام کاروباری اداروں اور راستوں سے سٹیٹ بشمول فوج کو باہر نکالنا ہو گا۔ کاروبار کی ہر نہج نجی ہاتھ میں دینی ہو گی اور کنٹرول مکینزم ریگولیشنز بنانی ہوں گی۔ ایکسپورٹ کے بجائے امپورٹ سبسٹیٹیوشن کی طرف جانا ہو گا۔ آبادی کے جن کو قابو میں لانے کے لیے چین جیسی پالیسی وضع کرنی پڑے گی۔ افرادی قوت کی سکلڈ ٹریننگ پر پیسہ ڈالنا پڑے گا۔ مائیکرو فنانس اور لارج سکیل فنڈنگ دونوں کو ترک کر کے یہ پیسہ ایس ایم ای ڈیولپمنٹ میں ڈالنا پڑے گا۔ فوج کی تعداد گھٹانی پڑے گی۔ اکانومی کو ڈاکومنٹ کرنا پڑے گا اور کمپریریٹو ایڈوانٹیج انڈسٹری کا فیصلہ کر کے وسائل اس پر مختص کرنے ہوں گے۔ زراعت میں انقلابی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ امتیازی قوانین کا خاتمہ اور سیکولر آئین کی تشکیل کرنی پڑے گی اور اور اور ۔۔۔۔ پر یہ پتہ نہیں کہ یہ سب کرے گا کون اور اگر کوئی کرنا چاہے گا تو ابو جان سے اجازت کیسے لے گا۔
اس لیے آرام سے دیوالیہ ہونے کا انتظار کیجیے۔