تحریر: ذوالفقار علی زلفی
تیتانلی تیتانلی
تیتانلی مرغ رامگیں
سُھر چمّ ءُ شَھمیر بانزلیں
کلاسیک بلوچی ادب بلاشبہ ایک جہانِ حیرت ہے ـ لفظیات، تشبیہات اور استعارات کے ایسے ایسے نمونے ملتے ہیں کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے ـ لڑکپن میں میرے استاد رحیم بخش آزاد نے مجھے سخت تاکید کی کہ اگر میں بلوچ اور بلوچستان پر لکھنے کا خواہش مند ہوں تو مجھے کلاسیک بلوچی شاعری کو اچھی طرح سمجھ کر ہضم کرنا ہوگا کیوں کہ بلوچ سماج، پیداواری رشتوں، نفسیات اور حرکیات کو سمجھنے کے لئے یہ ایک کلید ہے ـ استاد کا یہ مشورہ آج تک رہنما ہے، بلوچ نوجوانوں کو بھی اس مشورے پر عمل کرنا چاہیے ـ
درج بالا شعر معروف منظوم داستان "کِیّا سدو” سے مستعار لیا گیا ہے جو سدو نامی خاتون کی زبان سے کہلوایا گیا ہے ـ سدو لسبیلہ کی جدگال تھی جبکہ اس کا محبوب "کِیّا” باہوکلات کا کلمتی تھا ـ داستان کے اس حصے میں سدو ایک بڑے پروں والی خون رنگ آنکھوں کی مالکہ تصوراتی پرندے "تیتانلی” کو اپنا قاصد بنا کر باہوکلات روانہ کرتی ہے ـ
باہوکلات آج مغربی بلوچستان (ایران) کا حصہ ہے ـ یہ مغربی بلوچستان کے ساحلی شہر چابہار کے شمال میں قریب ساٹھ کلومیٹر اور مشرقی بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے شمال مغرب میں قریب پچاس کلومیٹر دور واقع ہے ـ یہاں بہنے والی ندی جو اسی کے نام سے موسوم ہے کو بلوچستان کی چند بڑی بڑی ندیوں میں شمار کیا جاتا ہے ـ کلمتی، گورگیج، ہوت، رند اور کھوسگ (کھوسہ) یہاں کے اہم ترین قبائل ہیں ـ
بلوچ مارکسی رہنما یوسف مستی خان کا آبائی تعلق اسی خطے کے گورگیج قبیلے سے ہے ـ مغربی بلوچستان کے دیگر بلوچوں کی مانند ان کا خاندان بھی قریب ایک سو پچاس سال قبل یہاں سے ہجرت کرکے کراچی جاکر آباد ہوا ـ محنت کش تھے، روٹی کی تلاش میں گئے تھے سو کراچی کی سرزمین پر پرصعوبت مزدوری میں لگ گئے ـ آگے بڑھنے اور زندگی کو مزید بہتر بنانے کی چاہ نے کراچی سے بھی ہجرت پر اکسایا ـ گجرات سے ہوتے ہوئے آسام پہنچے پھر وہاں سے برما جاکر دم لیا ـ
کیا سدو کی منظوم داستان میں باہوکلات کے کِیّا کے پاس ایک ایسا اونٹ تھا جو مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرلیتا تھا اور وہ اسی اونٹ پر بیلہ آتا تھا ـ گویا بلوچ صدیوں قبل بھی اڑنے کی خواہش رکھتا تھا ـ وہ اساطیری داستان ہے مستی خان خاندان حقیقت کی دنیا میں رہتا تھا اس لئے انہیں باہوکلات سے برما پہنچنے میں سالوں لگ گئے ـ تاہم وہ بھی اڑنے کی خواہش ضرور رکھتے تھے ـ برما کی ہوا راس آئی ـ نوآبادیاتی ریلوے لائن منصوبے کو پتھر مہیا کرنے کے کاروبار نے ان کی دولت میں دن دوگنی اور رات چوگنی اضافہ کیا ـ محنت کش خاندان سرمایہ دار میں بدل گیا ـ برما کے حالات بدلے خاندان نے واپسی کا سفر اختیار کیا ـ باہوکلات جانے کی بجائے کراچی میں پڑاؤ ڈالا ـ کراچی جو بلوچ سیاست و ثقافت کا لینن گراڈ ہے ـ
یوسف مستی خان بلوچ سیاست و ثقافت کے اسی لینن گراڈ میں اس سال پیدا ہوئے جس سال بلوچستان پر پاکستان کا جبری قبضہ مکمل ہوا، بلوچ شناخت سرخ لکیر پر آگئی اور بلوچ سیاست کی راہیں مسدود ہوگئیں ـ
سیاست ممنوع بنا تو ادیب و موسیقار پہلی صف میں آگئے ـ کراچی بلوچ ادب و ثقافت کا مرکز بن گیا ـ خیر محمد ندوی، سید ہاشمی، آزات جمالدینی، گل خان نصیر، فیض محمد بلوچ و دیگر اصحاب نے بلوچ شناخت کی بحالی کے لئے ادبی تحریک چلائی ـ ادب و موسیقی نے ہل چلا کر زمین کو ہموار کیا تو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور نیشنل عوامی پارٹی کی کونپلوں نے سر ابھارا ـ نوجوان یوسف مستی خان پہلے بی ایس او اور پھر نیپ کے ہم سفر بن گئے ـ ان اداروں نے انہیں مارکسزم سے آشنا کیا ـ طبقاتی سیاست اور قومی شناخت کی راہ سجھائی ـ
دولت مند تھے ـ خاندانی رئیس تھے مگر کراچی کے مزاحمتی مزاج اور نوجوانی کے اسباق نے انہیں امیروں سے دور کرکے محنت کشوں کا دوست بنا دیا ـ جس طرح کِیّا نے اپنے محبوب کو پانے کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا اسی طرح یوسف نے بھی نتائج و عواقب کی پرواہ کئے بنا آتشِ نمرود میں چھلانگ لگا دی ـ بالکل اپنے ہم نام و پیشرو یوسف عزیز مگسی کی طرح ـ بلوچ سیاست یوسف و برادران یوسف کی ہی کہانی لگتی ہے ـ
یوسف جب یوسف بنے تب ہماری تاریخ کا متضاد کردار بھٹو نمودار ہوا ـ ذوالفقار علی بھٹو جو کراچی کے بلوچوں کا رفیق مگر بلوچستان کا دشمن تھا ـ قصائی کے کردار کے حامل بھٹو نے نیپ کی پوری قیادت کو جیل میں ڈال دیا ـ بلوچستان پر بم برسائے گئے ـ ہمارے بزرگوں کا بدترین میڈیا ٹرائل ہوا ـ سردار عطااللہ مینگل کے فرزند اسد مینگل کو لاپتہ کرکے بلوچ سیاسی لغت میں جبری گمشدگی کا اضافہ کیا ـ بھٹو بظاہر یوسف پر مہربان رہے ـ وہ نہ صرف انہیں رہا کرنے پر راضی تھے بلکہ ان کے والد اکبر مستی خان کو ان کے کاروبار کے پھیلاؤ میں مدد کی پیشکش بھی کی ـ کاروباری اکبر مستی خان شاید مان بھی جاتے لیکن مارکسزم کے نظریے سے لیس یوسف نے نظریاتی انحراف سے انکار کردیا ـ انہوں نے عوامی حقوق پر کسی بھی سمجھوتے کو مسترد کردیا ـ
بزنجو کو غلطی سدھارنے کا وقت نہ ملا مگر ان کے نظریاتی رفیق یوسف مستی خان کو سدھارنے کا موقع مل گیا ـ انہوں نے اس دوران کراچی کی بلوچ آبادی کے تحفظ کا بیڑہ بھی اٹھایا ـ نوجوان انور بلوچ المعروف انور بھائی جان کو بلوچ اتحاد بنانے میں معاونت کی مگر پھر ایک دن بھائی جان اپنے ہم عصر الطاف حسین کے نقش قدم پر چل پڑے ـ یوسف لوٹ گئے ـ مگر وہ کراچی کے بلوچ مفادات کی جنگ لڑتے رہے ـ مارکسی تھے اس لئے جانتے تھے زبان کے نام پر محنت کش کو دوسرے محنت کش سے لڑانے میں کس کا فائدہ ہے ـ وہ بھلا اپنے اصلی دشمن کو فائدہ کیسے دیتے؟ ـ لیفٹ اسٹوں کو مجتمع کرکے "پاکستان ورکرز پارٹی” کی داغ بیل ڈالی جو آج "عوامی ورکرز پارٹی” کے نام سے فعال ہے ـ مارکسی یہی تو کرتا ہے ـ
پرویزمشرف نے جب بلوچ کو مٹانے کی دھمکیاں دینی شروع کیں تو یوسف مستی خان کراچی سے گونجے "پرویز مشرف سے پہلے ایسی کوشش انگریز بھی کرچکے تھے” ـ وہ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود عوامی ریلیوں میں شرکت کرتے ـ طویل مارچ کرتے ـ جلسوں میں بنا کوئی بڑھک بازی کئے سنجیدگی سے فوجی پروپیگنڈوں کو رد کرتے ـ لیاری کے گینگز کو نشانہ بنا کر ان کے اصلی سرپرستوں کو واضح کرتے ـ
"جمہوریت” کی بحالی کو انہوں نے کالی صبح قرار دے کر جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا ـ لینڈ مافیا ملک ریاض جب عسکری گھوڑے پر سوار ہوکر کراچی کے قدیم گوٹھوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے آیا تو یوسف مستی خان محنت کشوں کے ہمراہ ان کا راستہ روکے کھڑے تھے ـ
مولانا ہدایت الرحمان نے جب گوادر کی عوامی تحریک کو البدر اور الشمس کے حوالے کرنے کی کوشش کی تو وہ کینسر کے مرض اور ضعیف العمری کو بالائے طاق رکھ کر فوراً گوادر پہنچے ـ ایک ہی تقریر سے انہوں نے مولانا اور ان کے سرپرستوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا ـ منصوبہ سازوں کو کچھ نہ سوجھا تو انہیں غدار قرار دے کر پابند سلاسل کردیا ـ جس نے قلی کیمپ کی پراذیت جیل سے گزرنے کے باوجود نظریے سے منہ نہ موڑا بھلا وہ گوادر کی جیل سے کیا ڈرتے ـ اپنی ہزیمت چھپاتی سرکار نے انہیں گوادر بدر کردیا ـ
مارکسی کہلوانا آسان ہے ـ لینن اور مارکس کو پڑھ کر یہ تو کوئی بھی بن سکتا ہے ـ طول طویل اقتباسات دے کر داد کما سکتا ہے ـ مارکسی جدوجہد کرنا مشکل ہوتا ہے ـ یہ انگاروں پر چلنے جیسا ہوتا ہے ـ پسینے کی بدبو سے مہکتے محنت کشوں سے گھل مل کر ان جیسا بننا پڑتا ہے ـ ان کے لئے لڑتے لڑتے قید خانوں کی اذیت ناک فضاؤں سے گزرنا پڑتا ہے ـ عمر و بیماری جیسے بہانوں سے اوپر اٹھنے کی ضرورت ہوتی ہے ـ یہ سب کرنے کے بعد کوئی حق دار بنتا ہے "کامریڈ یوسف مستی خان” کہلانے کا ـ ہم محنت کش اپنے اس عظیم قائد کو اس امید و سرخ سلام کے ساتھ الوداع کہتے ہیں کہ ان کا مشعل کوئی اور یوسف اٹھا چکا ہے ـ یہ جنگ جاری رہے گی آخری فتح تک