Baam-e-Jahan

گلگت بلتستان کی تعلیمی صورتحال اور چند حقائق

نوید حسین

گلگت بلتستان کے تعلیمی نظام کے بارے میں اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ یہاں خواندگی کی شرح سو فی صد ہے یا تعلیمی نظام بہت اچھا ہے۔ ہاں دیگر علاقوں کی نسبت تعلیمی خواندگی کی شرح بہتر ضرور ہے مگر حوصلہ افزا نہیں کیونکہ سرکاری سکولوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ گلگت بلتستان کے محکمہ تعلیم کے 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق 5 سے 16 سال کی عمر کے46،022 بچے سکولوں سے باہر ہیں، جن میں اوسطاً 45 فیصد دیامر، 12 فیصد کھرمنگ، 11 فیصد استور، 7فیصد غذر اور 6 فیصد سکردو اور گانچھےکے بچے شامل ہیں۔ اسی طرح گلگت، شگر، نگر اور ہنزہ میں بالترتیب، 5، 4،3 اور 1 فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔

محکمہ تعلیم کے یہ اعداد و شمار نہایت ہی دلچسپ ہیں۔ یعنی صرف دیامر میں 245 سرکاری سکول(162 لڑکوں کے اور 83 لڑکیوں کے سکول ) موجود ہیں جبکہ ہنزہ میں 37 سرکاری سکول(23 لڑکوں کے اور 14 لڑکیوں کے ) موجود ہیں۔ اسی طرح میٹرک کے بعد کی تعلیم کے لئے گانچھے (2) ، سکردو (3)، گلگت (2) اور نگر (1)میں ہائر سکینڈری یعنی اعلیٰ ثانوی سطح کے سرکاری سکول موجود ہیں۔

اوپر دیے گئے گراف میں موجود معلومات کے مطابق گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں سرکاری سکول موجود ہیں یعنی دیامر اور سکردو میں سب سے زیادہ اور ہنزہ میں سب سے کم مگر ہنزہ اور نگرمیں سب سے زیادہ بچے سکول جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جن اضلاع میں بچے سکول نہیں جا رہے وہاں پر حکومت بچوں کو سکول بھیجنے کے لئے کاوشیں کم کر رہی ہیں۔ ضلعی سطح پر ان بچوں کے حوالے سے کوئی جامع منصوبہ سازی نہیں ہے یا مانٹرنگ کا نظام سست روی کا شکارہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ لوگوں کےمعاشی حالات اس حوالے سے اہم کردار اد ا کرتے ہیں مگرچونکہ ان سرکاری سکولو ں میں تعلیم مفت ملتی ہے لہٰذا حکومت والدین کو اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے حوالے سے تلقین کر سکتی ہے۔ چائلڈ لیبر پر ان اضلاع میں کام کرنے سے بھی سکول میں داخلوں کی تعداد بہتر ہو سکتی ہے۔

اسی طرح مختلف ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو سکول لانے کے لئے ترغیبات دی جاتی ہیں جیسا کہ ایک بچے یا بچی کو سکول بھیجنے پر حکومت اس خاندان کو ماہانہ کچھ پیسے دیتی ہے۔ ان کی کتابیں ، وردی اور دیگر اخراجات حکومت برداشت کرتی ہے۔ حکومت پنجاب بھی اسی طرح کا ایک پروگرام ’ زیور تعلیم‘ چلا رہی ہے۔ اگر حکومت اس معاملےمیں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو ان چھیالیس ہزار بچوں کو سکول لایا جا سکتا ہے تا کہ گلگت بلتستان کی سطح پر کوئی بچہ سکول سے باہر نہ رہے۔

بچوں کی انرولمنٹ کے ساتھ ساتھ سکول میں تعلیمی کارکردگی کے حوالے سے کام کرنا بھی وقت کے اہم ضرورت ہے۔ کووڈ جیسی صورتحال سے نمنٹے کے لئے ان تمام سکولوں کو ڈیجٹائزیشن کی طرف لے جانا لازمی ہے۔ اساتذہ کو ٹیکنالوجی کا درست استعمال اور آن لائن لیکچرز کے حوالے سے تربیت دینا بھی اہم ہے۔ گلگت بلتستان میں ۱۷، ۱۸ اور ۱۹ گریڈ پر اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی تقرری کی خبریں خوشی کا باعث بنتی ہیں مگر جب وہ ان سکولوں میں جا کر وہی پرانے نظا م کو پروان چڑھاتے ہیں تو لوگوں کی خوشیاں چکناچور ہو جاتی ہیں۔ اب چونکہ حکومت گلگت بلتستان نے لمز اور آئی بی اے کے طلبہ کے لئےحالیہ ترقیاقی پیکج میں خطیر رقم مختص کی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے پاس ایویڈنس موجود ہے کہ ان جامعات میں معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہیئے کہ اب اپنے سرکاری سکولوں میں معیار تعلیم کے لئے کام کرے تاکہ آپ کے کسی سرکاری ہائر سکینڈری سکول یا کالج کے طلبہ بھی لمز اور آئی بی اے جا سکیں۔ اگر ایسا نہیں تو ایلیٹ سکولوں کے بچوں کا نوازنا ہی کوئی درست اقدام نہیں۔ آغاخان ہائر سکینڈری سکول اور کیڈٹ کالجز کے بچے لمز یا آئی بی اے جاسکتے ہیں مگر آپ کے تعلیمی نظام کو تب سراہا جائے گا جب آپ ڈگری کالج گلگت، سکردو، نگر، غذر ، دیامر،ہنزہ وغیرہ کے بچوں کو لمز ، آئی بی اے اور اسی طرح کے معیاری یونیورسٹیوں تک رسائی دے سکیں۔

سرکاری سکولوں میں موجود مسائل سے آگاہی کے لئے حکومت گلگت بلتستان ایک آسان طریقہ اپنا سکتی ہے۔ لمز اور آئی بی اے کے جن بچوں کو سکالرشپ دی جا رہی ہے انہیں (دئیر از نو سچ تھنگ ایز فری لنچ کے مصداق یا ان کی صلاحیتوں کی بہتری کے لئے ) گرمیوں کی چھٹیوں میں نالج کریشن کے لئے انہیں مصروف رکھے۔ یعنی پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ یونٹ کی وساطت سے ایک جامع سوالنامہ بنوائیں جو سرکاری سکولوں کے اساتذہ اور سکول مینجمنٹ کمیٹی کے لئے مختص ہو۔ اب ان طلبہ اور اپنے سرکاری ریسرچ آفیسران کے ذریعے ان سکولوں کے لئے ایک جامع سیمپل اٹھا کر سروے کرے۔ سوالنامہ مختلف سوالات پر مبنی ہو سکتا ہے جیساکہ "کیا آپ کے بچے، بچیاں یاپوتے پوتیاں اس سکول میں پڑھتی ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ کیا آپ اس سکول کے تعلیمی کارکردگی سے مطمئن ہے؟ کیا آپ کے بچوں کو یہاں پر معیاری تعلیم مل رہی ہے؟ کیا آپ اپنے بچے کو اسی سکول میں رکھنا پسند کریں گے یا پرائیوٹ سکول میں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا آپ سرکاری سکول کے نصاب سے مطمئن ہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ پھر اس ڈیٹا کا سکول انرولمنٹ کے ڈیٹا کے ساتھ موازنہ کریں۔ اسی طرح آپ کےپاس آپ کے تعلیمی نظام کا درست نقشہ موجود ہو گا۔ پھر آپ اپنے پاس موجود ڈیٹا اور ایویڈنس کے مطابق اپنے تعلیمی نظام میں بہتری لاسکیں گے۔

درج بالا گراف محکمہ ٔ تعلیم گلگت بلتستان کی جانب سے عام استعمال کے لیے دستیاب اعداد و شمار سے ترتیب دیے گئے ہیں۔

نوید حسین کا تعلق یاسین سے ہے. وہ ایک نوجوان لکھاری اور ڈویلپمینٹ سیکٹر میں کام کرتے ہیں.

One thought on “گلگت بلتستان کی تعلیمی صورتحال اور چند حقائق

  • نوید حسسین صاحب نے بہترین تجزیہ کیا ہے جہان تک مالی وسائل کا تعلق ہے وہ دیامر میں سب سے زیادہ ہے کیونکہ وہاں کی جنگلات کی 75 فی صد امدن دیامر کے باشندوں کو ملتی ہے اور مزے کی بات اور انصاف کی بات یہ ہے کہ دیامر مین جنگل کی آمدنی کو نفری کے حساب سے تقسیم ہو تا ہے جس گھر کے افراد زیادہ ہونگے تو اُس کو رقم بھی یادہ ملتا ہے اور پھر مال مویشی کی تعداد وہاں زیدہ ہے ۔ اگر لوگ خود نہ پڑھائے توکیا کیا جائے ۔دیامر کے تعلیم یافتہ طبقہ کو بھی کوشش کرنی چاہئے پرائویٹ سکول کھولے ۔ باہر کے لوگو ں کو یا اداروں کو وہاں کے لوگ قبول نہیں کرتے تو کیا ھو سکتا ہے

    Reply

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے