تحریر : فریاد فدائی
مشہور جرمن گلوکار جیسو کارڈ کسی میوزیکل شو میں سٹیج پر پرفارم کرنے کے لئے آگئے وہ اسٹیج پر 10 منٹ تک لگاتار گاتے اور ناچتے رہے تاہم ہال میں موجود ہزاروں لوگ خاموش رہے جس پر جیسو کارڈ بھی شرما گئے اور اس قدر گھبراہٹ کا شکار ہوگئے کہ مائیک بھی ان کے ہاتھ سے گر گیا تماشائیوں میں سے ایک کم سن بچہ اچانک اٹھ کر سٹیج پر آیا اور زور سے چلانے لگا جیسو آپ اچھے گلو کار ہو گاؤ مزا آتا ہے کوئی سنے یا نہ سنے میں آپ کو سنوں گا آپ گاؤ یہ فقرہ سن کر جیسو پھر مائیک اٹھایا اور گانا گانے لگا ۔کم سن بچے کی داد اور گلوکار جیسو کارڈ کی دوبارہ دبنگ پرفارمنس نے ہال میں موجود شائقین کو جھومنے پر مجبور کردیا اس بچے کی داد نے جیسو کارڈ کے فن کو وہ قوت بخشی کہ جیسو نے دو مرتبہ جرمن صدارتی ایوارڈ "پرائڈ آف پرفامنس”حاصل کر لیا۔
میں کل سوشل میڈیا میں پوسٹ پر جب کسی صارف کا کمنٹ پڑھ رہا تھا تو مجھے جیسو کارڈ کا وہ انٹرویو اور اس بچے کی داد و محبت یاد آئی جس نے جیسو کارڈ کی زندگی بدل دی وہ لفظ "شاباش” جس نے جیسو کارڈ کو ڈش واشر سے پرفیشنل سنگر بنایا تھا لیکن ہم ہیں جو باشعور ہونے کے باوجود بھی لسانی تعصب اور بددیانتی کے خول سے باہر نہیں نکل پا رہے ہیں
ایک انٹرویو کے دوران جب رپورٹر نے جیسو کارڈ سے اس واقعہ سے متعلق پوچھا تو جیسو نے کہا کہ وہ بچہ کوئی اور نہیں بلکہ اسی ہوٹل کے سامنے کالونی میں رہائش پذیر ایک معمولی مزدور کا بیٹا تھا میں جس ہوٹل میں برتن دھوتا تھا وہ کم سن بچہ روز سکول جاتے ہوئے اس ہوٹل کے سامنے سے گزرتے تھے اور مجھے گانا گاتے دیکھ کر رک جاتے تھے مجھے سن کر تالیاں بجاتے اور مسکرا کر چکے جاتے تھے میں سوچ رہا تھا اس کم سن بچہ کے علاوہ میرا دنیا میں نہ کوئی فین ہے اور نہ ہوگا لیکن اس کی محبت اور داد نے میرے فن کو نہ صرف قوت بخشی بلکہ ان کی شاباش نے ہی میری فن کو نکھارا آج جرمنی سمیت دنیا بھر میں میرے لاکھوں فین ہیں دنیا میری آواز کو سن کر جھومتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب آپ کسی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو آپ کے دو مثبت الفاظ کسی کی تقدیر بدلنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
منفی سوچ اور ذہانت کو رد کرکے مثبت سوچ اور شعور کو پروان چڑھانے کے لیے میں اور میرے دوستوں نے کل ایک گروپ بنا لیا ہے اور اس گروپ کا نام شاباش گروپ رکھا ہے یہ گروپ اب ابتدائی مرحلے میں ہے اس کا منشور یہ ہے کہ یہ گروپ معمولی غلطی یا کوتاہی پر منفی تنقید کی بجائے لفظ شاباش اور بہتر ہوسکتا ہے جیسے مثبت الفاظ ادا کرنے کو ترجیح دے گی
میں کل سوشل میڈیا میں پوسٹ پر جب کسی صارف کا کمنٹ پڑھ رہا تھا تو مجھے جیسو کارڈ کا وہ انٹرویو اور اس بچے کی داد و محبت یاد آئی جس نے جیسو کارڈ کی زندگی بدل دی وہ لفظ "شاباش” جس نے جیسو کارڈ کو ڈش واشر سے پرفیشنل سنگر بنایا تھا لیکن ہم ہیں جو باشعور ہونے کے باوجود بھی لسانی تعصب اور بددیانتی کے خول سے باہر نہیں نکل پا رہے ہیں۔ ایسے عقل کل، باشعور اور حرف شناس دوستوں کے لئے سرکار جون ایلیا کیا خوب لکھتے ہیں ۔
اے شہر! تیرے اہل قلم بے ضمیر ہیں
ہم جو عظیم لوگ ہیں ہم بے ضمیر ہیں
ہم اک عجب غرور سے لے کر ادب کا نام
اے سامعین! تم پہ مسلط ہیں صبح و شام
ہو بولنے کا وقت تو گونگے بنے رہیں
اہل سخن ہیں اور سخن کے نمک حرام
یہ ناقدین شعر، ادب کے معلمین
اکثر غلط ہو جن کا تلفظ بھی قارئین
ہم ماہران پیشہ غم بے ضمیر ہیں
اے شہر تیرے اہل قلم بے ضمیر ہیں
بحیثیت انسان زبان، سوچ اور شعور کی وجہ سے ہم مثبت اور منفی میں تمیز کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان صفات کی وجہ سے ہم مخلوق میں اشرف بھی ہیں ورنہ تو زبان جانوروں کے پاس بھی ہیں لیکن ان میں بولنے کا سلیقہ نہیں ہے۔
منفی سوچ اور ذہانت کو رد کرکے مثبت سوچ اور شعور کو پروان چڑھانے کے لیے میں اور میرے دوستوں نے کل ایک گروپ بنا لیا ہے اور اس گروپ کا نام شاباش گروپ رکھا ہے یہ گروپ اب ابتدائی مرحلے میں ہے اس کا منشور یہ ہے کہ یہ گروپ معمولی غلطی یا کوتاہی پر منفی تنقید کی بجائے لفظ شاباش اور بہتر ہوسکتا ہے جیسے مثبت الفاظ ادا کرنے کو ترجیح دے گی جو بھی کام ہو اس پر رائے قائم کرنے سے پہلے اس کے نقصانات ، فوائد اور اثرات کا جائزہ لے گی اور قانونی و اخلاقی دائرے کے اندر رہتے ہوئے تنقید بھی کرے گی البتہ اظہار آزادی رائے کی آڑ میں اخلاقیات، شرم و حیا اور کسی کی عزت نفس اور شوق کو کھبی مجروح نہیں ہونے دے گی۔ آپ بھی اگر ہمارے گروپ کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو آئے ہمارے قافلے کا حصہ بنے اور مثبت سوچ اور شعوری مہم کو کامیاب کریں ۔