Baam-e-Jahan

رضاکار،سرکاری وسائل اور مسائل میں گھیرا  ہنزہ


سماج میں اس کا بنیادی مقصد رضا کارانہ یا امداد باہمی کے تحت سماجی معمولات زندگی کی سرگرمیوں اور اچانک رونما ہونے والے حادثات کی وجہ سے درپیش مسائل کو حل کرنے،لوگوں کو فوری مسائل سے نکالنے کے خاطر بلا معاوضہ خدمات  سرانجام دینا  والنٹیرزم یا رضاکارانہ خدمات کے زمرے میں آتا ہیں جس میں خالصتاً فوری سماجی بنیادی ضرویات کی فراہمی ،رسوم ورواج  اور  عقائد کے لئے منعقدہ اجتماعات کےانتظامات  اور انسانی ہمدردی کے عناصر شامل ہیں 


تحریر: فرمان بیگ


والنٹیرازم یا رضا کارانہ خدمات زمانہ قدیم سے وادی ہنزہ کے سماجی نظام  کا ایک اہم جز رہا ہیں،جس کا تسلسل آج بھی معاشرے  میں بڑے آب تاب سے جاری ہے وقت کے ساتھ اس کی ہیت میں تبدیلی آتی رہی ہے۔ سماج میں اس کا بنیادی مقصد رضا کارانہ یا امداد باہمی کے تحت سماجی معمولات زندگی کی سرگرمیوں اور اچانک رونما ہونے والے حادثات کی وجہ سے درپیش مسائل کو حل کرنے،لوگوں کو فوری مسائل سے نکالنے کے خاطر بلا معاوضہ خدمات  سرانجام دینا  والنٹیرزم یا رضاکارانہ خدمات کے زمرے میں آتا ہیں جس میں خالصتاً فوری سماجی بنیادی ضرویات کی فراہمی ،رسوم ورواج  اور  عقائد کے لئے منعقدہ اجتماعات کےانتظامات  اور انسانی ہمدردی کے عناصر شامل ہیں  جبکہ وقت کے ساتھ  ضرویات کی بروقت فراہمی اور اجتماعات کے انعقاد والنٹیرزم یا رضا کارانہ  سماجی خدمت گزاری کو ایک بلا معاوضہ پیشہ کی شکل دیا جاچکا ہیں۔

اب صورت حال یہ بن چکی  ہے کہ ہر اس سرگرمی کے عمل میں یعنی کاروباری ، ثقافتی،  سماجی وسرکاری پروگراموں کو بھی والنٹیرزم کے نقطہ نگاہ سے سر انجام دے رہے ہوتے ہیں جو ایک حد تک ایک  زندہ اور متحرک معاشرے کی علامت ہیں۔

تجارتی اور سرکاری سطح پر منعقد ہونے والے پروگرامات کے انعقاداور کسی بھی اچانک سانحات یا حادثات کے فوری ریلیف کے کام کو سر انجام دینے کے لئے ایک خطیر  بجٹ یا فنڈ ز ضلع  کے ترقیاتی فنڈز پر کٹ لگاکرمختص کیا جاتا ہیں جو ان پروگراموں کے انعقاد کے لیے ایونٹ آرگنائرز یا بالفاظ دیگر ٹھیکداروں کے ذریعے کئے جانے ہوتے ہیں

اب اگر ہم اس کے دوسرے رخ یا پہلو  پر غور کریں مثلا تجارتی اداروں یا سرکاری سطح پر منعقد ہونے والے تقریبات کو کامیاب بنانے کے لئے اسی جوش وجذبہ کے تحت والنٹیرزم کے ذریعے  بلا معاوضہ خدمات  سرانجام دے رہے ہوتے ہیں جس میں مقامی سطح پر بھی کچھ امور اور وجوہات ایسے ہیں کہ جن کی بنیاد پر علاقے کے لوگ از خود ان کوششوں  میں مصروف نظر آتے ہیں کہ سر کاری یا تجارتی اداروں کے تقاریب ان کے گاؤں یا علاقے میں منعقد ہو جس کی وجہ سے بھی ان سرگرمیوں یا پروگراموں  کو کامیاب بنانے کے لیے رضاکارنا سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہوتی ہیں ۔

جب کہ دوسری جانب دیکھا جائے  تو تجارتی اور سرکاری سطح پر منعقد ہونے والے پروگرامات کے انعقاداور کسی بھی اچانک سانحات یا حادثات کے فوری ریلیف کے کام کو سر انجام دینے کے لئے ایک خطیر  بجٹ یا فنڈ ز ضلع  کے ترقیاتی فنڈز پر کٹ لگاکرمختص کیا جاتا ہیں جو ان پروگراموں کے انعقاد کے لیے ایونٹ آرگنائرز یا بالفاظ دیگر ٹھیکداروں کے ذریعے کئے جانے ہوتے ہیں جیسا کہ   عطاء آباد سانحہ سے پیدا صورت حال ہمارے سامنے ایک مثال کے طور پر موجود ہے جب لوگوں کو اس مشکل حالات اور اس سانحہ سے پیدا شدہ  مسائل سے فوری طور پرنکالنے کے سرگرمیوں کے لئے ایک خطیر سرمایہ کی مد میں امدادی فنڈز مختص ہونے کے باوجود ہنزہ کے مکینوں  نے بلا معاوضہ رضاکارنا حیثیت میں خدمات سرانجام دیئے تھے اور کام کرنے کے دوران حادثہ پیش آنے کی وجہ سے ایک رضا کار جان بحق ہوئے تھے ۔  

بہت سارے معاشی وسائل فنڈز کی صورت میں ضلعی انتظامیہ کے پاس ہونے کے باوجود جب گاؤں  کی سطح  پر یا  دیہی آبادی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بلدیاتی ادارے کے فنڈز سے حل ہونے والے مسائل بھی حل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہیں ۔ مثلا پینے کے صاف پانی،آب پاشی کے چھوٹے چھوٹے نظام،قدرتی آفات سے پیدا ایمرجنسی صورت حال اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی جو بلدیاتی اداروں کے کرنے کے ہیں ان میں بھی کوئی کام ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔

ماضی کے دستیاب معلومات اور شواہد کے مطابق ڈسٹرکٹ ہنزہ میں سرکاری سطح پر منعقد کئے جانے والے اکثر پروگراموں یا کسی قدرتی آفات سے پیدا صور ت حال کے دوران اکثر وبیشتر   رضاکارنہ حیثیت میں علاقے کے لوگ ان پروگراموں کے انعقاد اور سانحات سے لوگوں کو بچانے کے لئے اپنی خدمات بلا معاوضہ پیش کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں جس سے بظاہر  ایک خطیر مالی سرمایہ یا بجٹ کی بچت ہو جاتی ہیں دوسری طرف سانحات اور حادثات کے لئے الگ سےایمرجنسی فنڈز مختص ہونے کے ساتھ بلدیاتی اداروں کی ایک خطیر فنڈز  ضلعی  انتظامیہ کے  صوابدید پر بھی ہوتا ہیں اس کے علاوہ حالیہ منظور کردہ جی بی ریونیو ایکٹ کے اختیار ات کے تحت بلدیاتی ادارے یا ضلعی انتظامیہ  ایک مناسب فنڈز عوام سے مختلف مدوں میں سرجارج جرمانہ یاباالفاظ دیگر ٹیکسوں کی صورت میں وصول کررہے ہیں  جس طرح کچھ عرصہ قبل سب ڈوژن گوجال میں ہوٹلوں اور مال مویشیوں پر ایک بھاری جرمانہ عائد کرکے وصول کئے گئے تھے۔

عطاء آباد سانحہ سے پیدا صورت حال ہمارے سامنے ایک مثال کے طور پر موجود ہے جب لوگوں کو اس مشکل حالات اور اس سانحہ سے پیدا شدہ  مسائل سے فوری طور پرنکالنے کے سرگرمیوں کے لئے ایک خطیر سرمایہ کی مد میں امدادی فنڈز مختص ہونے کے باوجود ہنزہ کے مکینوں  نے بلا معاوضہ رضاکارنا حیثیت میں خدمات سرانجام دیئے تھے اور کام کرنے کے دوران حادثہ پیش آنے کی وجہ سے ایک رضا کار جان بحق ہوئے تھے ۔  

 اتنے سارے معاشی وسائل فنڈز کی صورت میں ضلعی انتظامیہ کے پاس ہونے کے باوجود جب گاؤں  کی سطح  پر یا  دیہی آبادی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بلدیاتی ادارے کے فنڈز سے حل ہونے والے مسائل بھی حل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہیں ۔ مثلا پینے کے صاف پانی،آب پاشی کے چھوٹے چھوٹے نظام،قدرتی آفات سے پیدا ایمرجنسی صورت حال اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی جو بلدیاتی اداروں کے کرنے کے ہیں ان میں بھی کوئی کام ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔

 مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہر جگہ اور ہر سطح پر ضلع ہنزہ ایک گھمیبر  مسائل کا شکار ہیں۔

سرکاری مد میں ایک کثیر سرمایہ اور مقامی سطح پر رضا کارنہ خدمات دینے والا ایک منظم نظام ہونے کے باوجود ہنزہ چھوٹی چھوٹی بنیادی مسائل کا شکار رہنا بلدیاتی اداروں ، ضلعی انتظامیہ اور علاقے کے سیاسی و سماجی اکابرین کے لئے ایک سوالیہ نشان ہیں۔  

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے