Baam-e-Jahan

چترال میں گندم کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ


رپورٹ: گل حماد فاروقی


چترال گندم کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافے اور آناج فلور ملز کو بیچنے کے خلاف سول سوسائیٹی اور  آل پارٹیز کے کال پر اتالیق چوک میں ایک احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔

 جلسہ میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نمائندگان، تاجر یونین، ڈرائیور یونین، سول سوسایٹی کے نمائندوں اور کثیر تعداد میں لوگو ں نے شرکت کی۔

اس موقع پر چترال بازار میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی رہی جبکہ مین پشاور چترا ل شاہراہ کو بھی بلاک کیا گیا۔

احتجاجی مظاہریں  سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ چترال کے لوگ بھی پاکستانی ہیں اور پر امن شہری ہیں مگر ان کے ساتھ حکومت سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتی ہے۔

 انہوں نے کہا ک سابقہ صوبائی حکومت نے ایک نوٹیفیکشن جاری کرتے ہوئے ضلع بھر میں تمام پن چکیوں کو بند کرکے غیر مقامی لوگوں کو  فلور مل کھولنے کی اجازت دے دی ہے جس کی وجہ سے گوداموں میں عوام کو گندم نہیں مل رہا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ ان ملوں میں نہایت ناقص آٹا عوام کو فراہم کی جاتی ہے جو انسانوں کے کھانے کی قابل نہیں  جبکہ لوگوں کو  رعایتی نرح پر گندم کی فراہمی بند کرائی گئی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ لوگوں نے وہ بھی  برداشت کیا مگر ابھی حال ہی میں عبوری حکومت کے دور میں گندم کی قیمت یک دم سو فی صد بڑھائی گئی اور سو کلوگرام گندم کی بوری چھ ہزار کی بجائے اب بارہ ہزار روپے پر ملتی ہے جبکہ یہی گندم گلگت بلتستان میں صرف چار ہزار روپے میں ملتی ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ چترال میں تمام فلور ملوں کو بند کرکے پرانے نظام کے تحت لوگوں کو گندم  سیل پوائنٹ سے فراہم کی جائے تاکہ یہ لوگ اپنی مرضی سے اسے پن چکیوں میں پیس کر استعمال کرے کیونکہ مل میں جو گندم پیسا جاتا ہے اس میں سے خالص میدہ  الگ، سفید آٹا الگ، چوکر الگ اور نہایت ناقص معیار کا آٹا الگ کیا جاتا ہے جسے عوام کو فروخت کی جاتی ہے۔ حکومتی پالیسی کے مطابق  چترال میں چلنے والے مل ستر فی صد آٹا  سستے نرح پر عوام کو فروخت کرے گا جبکہ تیس فی صد آٹا وہ اپنے مرضی سے فروخت کرنے کا پابند ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو رعایتی آٹا عوام کو فروخت کی جاتی ہے وہ کھانے کی قابل بھی نہیں ہے اور اکثر مل مالکان یہاں سے آٹا دوسرے اضلاع کو بھی اسمگل کرتے ہیں۔

جلسہ میں ایک متفقہ قرارداد بھی منظور ہوئی۔ جس میں مطالبہ کیا گیا کہ گندم کی نرح میں فی بوری اچانک چھ ہزار روپے اضافہ کرنا ایک ظالمانہ فیصلہ ہے  اس کے نتیجے میں عوام میں شدید غم و غصہ اور تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ اب عوام دو وقت کی سوکھی روٹی کے لئے بھی ترس رہے ہیں۔

آل پارٹیز اور سول سوسایٹی یہ مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت  اس فیصلے کو فوراً واپس لے۔

قرارداد کے ذریعے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ چترال کے عوام کو بھی گلگت بلتستان کے نرح پر گندم فراہم کیا جائے  کیونکہ چترال اور گلگت کے عوام کو ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے۔چترال میں  لوگ آٹا ملز کے مالکان کی من مانیوں سے تنگ آچکے ہیں  جو چترال کے کوٹے کا گندم خرید کر  اور اس سے بننے والا  آٹا دگنی نرح پر عوام کو فروخت  کر رہے ہیں جو معیاری بھی نہیں ہوتا اور چترال سے آٹا ضلع سے باہر بھی بھیج رہے ہیں۔

قرارداد کے ذریعے محکمہ خوراک سے مطالبہ کیا گیا کہ چترال میں آٹا ملوں پر پابندی  لگا کر عوام کو گودام سے  گندم فراہم کیا جائے  نیز گوداموں میں لوگوں کو بے جا تنگ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے  اور عوام کی ضرورت کے مطابق گندم کی فراہمی کا انتظام کیا جائے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر  ہمارے مطالبات منظور نہیں ہوئے  تو عوام شٹر ڈاؤن  اور پہیہ جام ہڑتال کرنے پر مجبور ہوں گے اور  حالات کی کشیدگی کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوں گی۔

انہوں نے یہ بھی الزام عاید کیا  کہ جس دن غلہ گوداموں میں گندم کی فراہمی بند کرتے ہوئے مل مالکان کو آٹا دینے کی نوٹیفیکیشن آئی اس وقت ان گوداموں میں ایک مہینے کا سٹاک موجود تھا مگر وہ اچانک غائب ہوا اس سلسلے میں بھی تحقیقات ہونا چاہئے۔

ہمارے نمائندے نے ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر رحمت ولی خان کے دفتر جاکر ان سے بھی موقف لیا ان کا کہنا ہے کہ گندم کی نرح بڑھانے میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے وہ حکومت کا فیصلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام کے مطالبے پر نو دن آٹا ملوں کو گندم کی فراہمی بند ہوئی تھی بعد میں صوبائی حکومت کی مداخلت پر یہ سلسلہ دوبارہ جاری ہوا۔ تاہم چترال کے سرکاری گودام سے روزانہ دو سو من گندم عوام کو دی جاتی ہے اسی طرح دروش کے گودام سے 180 من گندم روزانہ عوام کو فراہم کی جارہی  ہے یہ گندم آٹاملوں کو فراہم کرنے کے علاوہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آٹا ملوں کے لئے  کوٹے کا سرکاری نرح مقرر ہے  اور اسی نرح پر عوام کو آٹا فراہم کیا جاتا ہے۔ ہمارے نمائندے نے مل مالکان سے بھی رابطہ کرکے ان کی موقف لینے کی کوشش کی مگر انہوں نے فون اٹنڈ نہیں کیا۔

 جلسہ میں چترال سے منتحب صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین پر بھی کڑی تنقید کی گئی جو ووٹ کے وقت عوام کا ہاتھ چھومنے سے دریغ نہیں کرتے مگر مصیبت کے اس  گھڑی میں اب وہ غائب ہیں۔

اس احتجاجی جلسہ میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں، تاجر یونین، ڈرائیور یونین، سول سوسایٹی کے نمائندگان نے بھی اظہار حیال کیا جس میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں