کروڑوں روپے بجٹ کے جشن شندور بھی ہو گیا اور نوکر شاہی نے اسی مد میں کروڑوں روپے اڑا بھی لئے مگر اس پتھر کو راستے سے ہٹا کر سڑک کو صاف کرنے کی زحمت کسی نے بھی گوارہ نہ کی۔
تحریر: کریم اللہ
گزشتہ کل بونی سے مستوچ جاتے ہوئے ایک گاڑی پرواک روروم میں حادثے کا شکار ہو گئی جس کے نتیجے میں گاڑی میں سوار تین افراد جان بحق اور دو زخمی ہو گئے ہیں۔
تفصیلات پڑھئے: اپر چترال پرواک میں گاڑی حادثے کا شکار، خاتون سمیت دو نوجوان جان بحق
یہ حادثہ جہاں پیش ہے اس سے چند قدم پیچھے ایک بڑا پتھر آپ کو نظر آرہا ہے جو کہ سڑک کے بیچوں بیچ کھڑے ہیں۔ یہ پتھر موسم سرما میں برف باری کے نتیجے میں اوپر سے گر کر سڑک کے بیچوں بیج کھڑا ہو گیا تھا۔
اس وقت علاقے کے ڈرائیوروں نے اپنی مدد آپ کے تحت پتھر کے دونوں اطراف میں سڑک بنا کر ٹریفک بحال کر دیا تھا مگر اس کے بعد متعلقہ ادارے اس پتھر کو یہاں سے ہٹانے کی زحمت گوارہ نہ کی اور یوں یہ پہاڑ نما پتھر گزشہ چھ سات ماہ سے سڑک کے بیچ پڑا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: نادرا آفس دروس چترال میں افغان باشندوں کے لئے پاکستانی شناختی کارڈ بنوانے کا انکشاف
آج کے گاڑی حادثے کی وجہ تو معلوم نہ ہو سکی مگر اس پتھر سے تھوڑا آگے جا کے گاڑی کو حادثہ پیش آنے کی وجہ یہی پتھر بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اس کے نیچے دریا کی سائیٹ پر بالکل باریک سڑک ہے جہاں سے گزرتے ہوئے شاید ڈرائیور نے رستہ مس کیا ہو یا پھر کچھ اور۔
ایسے میں کروڑوں روپے بجٹ کے جشن شندور بھی ہو گیا اور نوکر شاہی نے اسی مد میں کروڑوں روپے اڑا بھی لئے مگر اس پتھر کو راستے سے ہٹا کر سڑک کو صاف کرنے کی زحمت کسی نے بھی گوارہ نہ کی۔
اور نہ ہی محکمہ این ایچ اے اور ان کے ٹھیکیدار نے اس مسئلے کو سنجیدہ لیا حالانکہ سالانہ سڑکوں کی مرمت و بحالی کے نام پر کروڑوں روپے ریلیز ہوجاتے ہیں۔
علاقے کے لوگوں کی بھی غفلت کا یہ عالم ہے کہ اس سلسلے میں کسی نے بھی آواز اٹھانے کی زحمت گوارہ نہ کی اور آج اسی پتھر کی وجہ سے تین جانیں ضائع ہو گئی۔ کیا اپر چترال انتظامیہ اور محکمہ این ایچ اے اب بھی ہوش کے ناخن لیں گے اور اس پتھر کو ہٹا کر راستہ صاف کریں گے یا یہ پتھر سڑک پر پڑی رہے گی۔؟
مصنف کے بارے میں :
کریم اللہ عرصہ پندرہ سالوں سے صحافت سے شعبے سے منسلک ہے اس کے علاوہ وہ کالم نویس، وی لاگر اور وڈیو جرنلزم کر رہے ہیں۔
چترال اور گلگت بلتستان کے سیاسی، سماجی و معاشی مسائل و مشکلات اور روزمرہ کے واقعات پر لکھتے ہیں۔ جبکہ وہ بام دنیا کے ایڈیٹر ہے ۔