Baam-e-Jahan

پاکستان میں صحافت اور ریاست


لازم ہے کے ہم بھی دیکھیں گے

عروج جعفری


پاکستانی صحافت کا میدان جن شخصیات سے “لیس” ہے، ان میں کئی جیالے اور کئی کاروباری سبھی شامل ہیں۔ کہیں قلم پر ضرب لگی ہے اور کہیں قلم ضرب لگا رہا ہے اور لگاتا آیا ہے۔ دونوں ہی کھیل مشکل ہیں۔ کبھی صحافی پریشان کبھی کھلاڑی حیران۔ صحافیوں اور کھلاڑیوں کی یہ جنگ طویل دور سے جاری ہے اور ہمیشہ رہے گی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے لیے کام کرنے والے ایک نامور نڈر صحافی نے پاکستان میں صحافت کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صحافت نے ملکی سیاسی حالات کے ساتھ ساتھ کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ جیسے ستر کی دہائی میں جن لوگوں نے  پریس فریڈم کے تحت ملکی سیاسی حالات پر لکھا اور سودے بازی نہ کی وہ ستر کی دہائی تک ضیا کے دور میں مارشل لاء کے دوران جلا وطنی میں چلے گئے۔

لیکن ضیا کے بعد  بینظیر اور نواز شریف کے دور میں صحافت کو بھی جیسے سانس لینے کا موقع ملا۔ یہ آزادی، دیکھا جائے تو پرویز مشرف کے دور میں بھی جاری رہی گو کہ اس دوران حساس ادارے (آئی ایس آئی) خاص کر حرکت میں آئے اور بیانیہ کنٹرول کرنے کا سلسلہ شروع ہوا لیکن پرویز مشرف کو بھی منہ کی کھانا پڑی۔

موجودہ سیاسی پس منظر میں قلم کا بھرم کیسے بنا ہوا ہے اور قائم رہے گا  اس حوالے سے ایک اور دبنگ صحافی اور وہ بھی خاتون، عاصمہ شیرازی نے اپنے دلیرانہ انداز میں کہا کہ وہ نا امید ہونے والوں میں سے نہیں بلکہ موجودہ قدغنوں کے باعث انہیں فخر ہے کہ صحافی زبان بندی کے فارمولے کو یکسر فراموش کر رہے ہیں اور اپنے شعبے اور کام کا حق ادا کر رہے ہیں۔ عاصمہ کے بقول صحافیوں پر پابندیوں میں تیزی آ رہی ہے یا انہیں پکڑ دھکڑ سے ہراساں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان کی برطرفیاں عمل میں آ رہی ہیں یا سوشل میڈیا کے ٹول یا پرزے کو لغویات کی ترسیل میں فعل بنایا جا رہا ہے، صحافیوں کے لیے نہ صرف خطرات بڑھ رہے ہیں بلکہ ان کا کردار بھی محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ سب کیا ہی اسی لیے جا رہا کہ ہم لکھنے والوں، بولنے والوں کا زور توڑا جا سکے جس زور سے ریاست ہمیشہ خوفزدہ رہی ہے لیکن یہ حوصلے پست کرنا ممکن نہیں۔ “کہ رکھ دی ہے ہر اک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے”۔

چہرے دھول میں میلے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کی جاتی رہی ہے کہ کس طرح ان سچے اور کھرے اذہان کو ڈس کریڈٹ کیا جا سکے ان کی ساکھ کو کمزور کیا جائے لیکن متاع لوح و قلم کو لوٹا نہیں جا سکتا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے لیے کام کرنے والے ایک نامور نڈر صحافی نے پاکستان میں صحافت کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صحافت نے ملکی سیاسی حالات کے ساتھ ساتھ کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ جیسے ستر کی دہائی میں جن لوگوں نے  پریس فریڈم کے تحت ملکی سیاسی حالات پر لکھا اور سودے بازی نہ کی وہ ستر کی دہائی تک ضیا کے دور میں مارشل لاء کے دوران جلا وطنی میں چلے گئے۔

موجودہ حالات کو باریکی سے دیکھتے ہوئے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے وابسطہ رہنے والے  سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ جمہوری ادوار سب سے زیادہ ریاست کو ناپسند رہے ہیں، زرداری، نواز شریف حکومتوں کے دوران اسٹبلشمنٹ نے جو راہ نکالی اور جس طرح عمران خان کو مسلط کیا تو گویا ریاست اپنے موقف میں مزید سخت گیر ہوتی چلی گئی اور اسی دور میں سوشل میڈیا کی بھرمار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹرول بریگیڈ کی داغ بیل ڈال دی گئی۔ جو سوشل میڈیا ٹوئِٹر ہینڈلز پر ان کا بیانیہ چلانا شروع ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ عملی طور پر پکڑ دھکڑ اور پابندیاں عائد کیں۔

 میر شکیل الرحمن سے لے کے گل بخاری، مطیع اللہ جان، ایکٹوسٹ وقاص گورایا، حسن مہدی عسکری جیسے کتنے ہی نام ہیں جو ریاست کو آئینہ دکھانے کی پاداش میں دھر لئے گئے، اٹھائے گئے، بے روزگار ہوئے اور جلا وطن بھی۔

یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور کہاں کھڑا ہے؟ ریڈیو، ٹی وی اور پرنٹ نامہ نگار شاہ زیب جیلانی اس بارے میں جامع اور قدرے تاریک مسقبل پر روشنی ڈالتے ملے۔ ان کے مطابق صحافت میں بڑی مداخلت ہمیشہ ریاست کی رہی ہے اور اداروں کے کمرشل انٹرسٹ بھی ہوتے ہیں جو خود ساختہ سینسرشپ کا باعث بنتے ہیں۔ اس حوالے سے عمران خان صاحب کا دور ایک بدترین دور تھا جس میں مائیکرو منیجمنٹ نے حد ہی کر دی تھی ۔ موضوعات کے چناو سے لے کر مہمان بلانے تک ہر فیصلے پر ریاست کی چلتی لیکن گزشتہ برس فوج نے نیوٹرل ہونے کا دعوی بھی کیا اور یہ لگا بھی کہ جیسے کچھ قدم پیچھے ہٹے بھی ہوں لیکن منظر سے اوجھل نہیں ہوئی۔  البتہ موجودہ برس نو مئی کے بعد حالات تیزی سے بدلے ہیں اور جنہوں نے دو تین قدم پیچھے لیے تھے انہوں نے چار پانچ قدم کی پھر پیش رفت کی ہے اور صرف ایک سیاسی پارٹی ان کا ٹارگٹ نہیں بلکہ ان کا دائرہ کار وسیع تر نظر آتا ہے جو ہمیشہ سے ان کا شعار رہا ہے۔ اب مزید پابندیاں چینلوں کو جھیلنا ہوں گی کہ ملٹری کورٹس اور فلاں لیڈر کا نام نہیں لیا جا سکتا اور آنے والے دنوں میں ہم صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر ان غیر جمہوری ہتھکنڈوں کا شکنجہ مزید مضبوط گرفت کے ساتھ تنتا دیکھیں گے۔

لیکن “لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے”۔

اپنا تبصرہ بھیجیں