Baam-e-Jahan

بونی میں ذہنی صحت کے حوالے سے ایک روزہ سیمینار کا انعقاد


دور جدید کے تقاضوں کے مطابق اپنے بچوں اور بچیوں کی تربیت کرنی چاہئے اور ہر ایک والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اولاد کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھے اور انہیں اعتماد دلائے تاکہ وہ اپنے مسائل و مشکلات اپنے والدین کے ساتھ شئیر کر سکیں اور اس طرح ہم اس پیچیدہ مسئلے پر قابو پا سکتے ہیں۔ ذہنی صحت کے حوالے سے سیمینار میں گفتگو

رپورٹ: سرفراز شاہد


چترال میں ذہنی صحت اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے حوالے سے HIVE  پاکستان اور کمیونٹی اینویشن لیپ کے تعاون سے  ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں علاقے کے سماجی و سیاسی شخصیات، لکھاری، خواتین سمیت مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔

اس پروگرام کا مقصد علاقے میں بڑھتے ہوئے ذہنی مسائل، خود کشیوں کے رجحانات اور ان کے تدارک کے حوالے سے تفصیلی  گفتگو کرنا تھا۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے عالم دین قاری میر فیاض چترالی کا کہنا تھا کہ چترال میں ذہنی صحت کے مسائل اور خود کشیوں کی بڑی وجہ والدین اور معاشرے کا بچوں اور بچیوں پر دباؤ ڈالنا اور انہیں خوف زدہ کرنا ہے۔

 ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دور جدید کے تقاضوں کے مطابق اپنے بچوں اور بچیوں کی تربیت کرنی چاہئے اور ہر ایک والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اولاد کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھے اور انہیں اعتماد دلائے تاکہ وہ اپنے مسائل و مشکلات اپنے والدین کے ساتھ شئیر کر سکیں اور اس طرح ہم اس پیچیدہ مسئلے پر قابو پا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں تعلیم اور امتحانی نتائج کے حوالے سے اپنے بچوں اور بچیوں پر حد سے زیادہ دباؤ ڈالنے سے بھی گریز کرنی چاہئے۔

اس موقع پر ایک اور اسکالر عباد الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے ذہنی بیماریوں اور خود کشیوں کی وجوہات سے متعلق سماجی مسائل پر تفصیلی گفتگو کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے علاقے میں ذہنی بیماریاں روز بروز بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور ان کے تدارک کے لئے ہمیں اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے نصاب اور پالیسی سازی میں ذہنی صحت کو شامل ہی نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے اس پیچیدہ مسئلے کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں کوئی سنجیدہ  اقدامات نظر نہیں آرہے ہیں۔

انہوں نے حوالہ دیا کہ ہم بطور مجموعی میڈیا کی وجہ سے اپنے گرد و پیش اور خاندان کی صورت حال سے بے خبر دنیا کے دوسرے حصوں کے مسائل پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے گھر کی سطح پر والدین بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھ کر ان کی بات سنیں اور ان کے مسائل و مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کریں بجائے نئی نسل کو دوشی ٹہرانے کے۔

اس موقع پر شندور وومن فورم کے فضیلہ بی بی نے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ذہنی بیماریوں اور خود کشیوں کے حوالے سے ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس ابھرتے ہوئے مسئلے پر قابو پایا جا سکیں۔

سابق ممبر صوبائی اسمبلی حاجی غلام محمد نے بھی اس موقع پر ڈسکشن میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ذہنی بیماریاں اور خود کشی ہمارے علاقے کے حوالے سے گھمبیر مسئلہ ہے آج کے اس پروگرام میں ہمیں اس پیچیدہ مسئلے کو سمجھنے میں کافی حد تک مدد ملی۔

انہوں نے کہا کہ ہم آئیندہ اپنے انتخابی منشور میں ذہنی صحت کو شامل کریں گے۔

خاتون کونسلر شاہدہ پروین، ذاکر محمد زخمی، ظہیر الدین بابر، افضل قباد وغیرہ نے بھی اس ایشو پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ذہنی بیماریوں کی روک تھام کے لئے سب نے مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

سیمینار میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ واٹس ایپ گروپ تشکیل دیا جائے گا علاقے میں جہاں کہیں بھی ذہنی صحت کے حوالے سے کوئی مسئلہ درپش ہو  تو اس نیٹ میں رابطہ کیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں