وسیم خان
کہتے ھو تم نیا سال آیا ہے کیسے کہوں میں کہ نیا سال آیا ہے کیا رات کا دن میں بدلنا نیا سال ہے
افتادگان خاک پہ جو گزری اس کا کیا۔
خواب جو خاک نشیں ھوئے ان کا کیا۔
جب غور کرتا ھوں میں۔
خود کو چیختا ھوا پاتا ھوں میں۔ اک ھوک سی اٹھتی ہے درد کی۔
کیسے کہوں نیا سال آیا ہے۔
عرب کے صحراؤں میں چیختا ھوا لہو
کسی ماں کی آنکھ میں ٹھہرا ھوا آنسو
حوا کی بیٹی کی لٹتی عصمت
اور سر بازار مرتا ھوا انسان
کہتے ھو تم نیا سال آیا ہے۔
سوچتا ھوں تو زندگی اذیت دیتی ہے۔
بحیرہ روم میں ڈوبتی بھوک۔
اور روم کے نیلگوں پانیوں میں تیرتا قحط
زندگی نایاب تھی ارزاں کیسے ھوئی۔
وہ جو تاریک راہوں میں بھٹک گے۔
اپنے آج کو نسل نو پے وار دیا ۔
میں کیسے کہوں کہ نیا سال آیا ہے۔
عصمت بیچ کہ بیٹی
ماں کیلئے جو دوا لائی تھی۔
اور سرحد کے اس پار اپنی ہی طرح کے۔
کسی محنت کشں کے بیٹے کی۔ انجان گولی کا نشانہ بن گیا۔
روز بلکتی ہے زندگی۔ اور قہر برساتی ہیں سانسیں۔
ارزاں ہے انسان اور نایاب ہے درد۔
کہتے ھو تم نیا سال آیا یے۔ ماننے کو میں بھی مان سکتا ھوں۔
کسی ساہوکار کے روشن آتش داںکے گرد۔
ٹکراتے ہیں جام۔
ساز کی لے پہ تھرتھراتے ہیں جسم۔
اور جھپٹتے ہیں گدھ۔
کسی معصوم کے جسم پر
اک نوخہ اور بپا ھوتا ہے بے بسی سر پھوڑتی ہے
اونچی دیواروں کے گرد
خواب بکھر جاتے ہیں
جن کو تعبیر ہی نہ ملی تھی
کہتے ھو تم نیا سال آیا