پروفیسر نعیم اختر
کسی نے اگر نئے پاکستان کے اصل احتساب کا چہرہ دیکھنا ہو تو وہ اصغر خان کیس کا ”انجام“ دیکھ لے۔ جس کیس کو انجام دینے سے ملک کے اصل اور بڑے طاقتور انجام کو پہنچ جاتے، وزیر اعظم کی ایف آئی اے نے اسے ختم کر کے داخل دفتر کرنے کی سفارش کر لی ہے۔ اس لیے کہ اصغر کے کیس میں کچھ ”اکابر“ کا نام بھی آ رہے تھے۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ پچیس سال قبل بینک ریکارڈ تلاش کرنا ممکن نہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہی احتساب کا نظام ہے جس میں نواز شریف کے کیس میں چالیس برس پہلے کی بینک ٹرانزیکشنز مانگی گئی تھیں۔
ہم نئے پاکستان کے بانی سے کیا شکوہ کریں کہ وہ جن کے کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہیں، ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرتے ہوئے ان کے پر جل جاتے ہیں۔ ہماری قوم کا حافظہ کمزور سہی مگر اسے ماضی قریب میں عمران خان کے اصغر خان کیس پر دیے جانے والے بیانات اور ”اصولی“ سٹینڈ تو اچھی طرح یاد ہو گا۔ نواز شریف کو سزا دلوا کر وہ اس زعم میں مبتلا ہو گئے تھے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی طاقتور کو سزا ملی ہے حالانکہ اصل طاقتور ان کے سامنے سی ایم ایچ سے کمر درد کا بہانہ بنا کر دم دبا کر بھاگ نکلا تھا اور سیدھا دبئی جا کر دم لیا تھا۔
نواز فیملی اور ن لیگ کے خلاف عدالتی مارشل لا نافذ کرنے والے چیف جسٹس بھی اسے واپس بلا کر کیس نہ چلا سکے۔ انہیں بھی غلط فہمی تھی کہ وہ طاقتوروں کا احتساب کر رہے ہیں مگر جب طاقت کے حقیقی سرچشموں سے واسطہ پڑا تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا۔ فرض کریں وہ بھگوڑا ملک میں واپس آ بھی جائے توکیا ہوگا کیونکہ وزیراعظم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ اس کا احتساب کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ دلچسپی رکھیں بھی تو کیونکر یہ معاملہ ان کی بساط سے یکسر باہر ہے۔
فرض کریں اصغر خان کیس میں دو ”مقدس گائیں“ شامل نہ ہوتیں اور سب ہی بیچارے سیاستدان ہوتے تو کیا وزیراعظم، ایف آئی اے، عدالتِ عالیہ، نیب اور حکمران جماعت کے نمائندوں کا یہی رویہ ہوتا؟ کیاریاست مدینہ میں کمزور اور طاقتور کے لیے دو قانون رائج تھے۔ ؟ یہ کیس تو نئے پاکستان کے لیے ٹیسٹ کیس تھا مگر نئے پاکستان اور ریاست مدینہ کے دعویداروں نے تو پہلے ہی قدم پر گھٹنے ٹیک دیے۔ یہ نظام تو صرف کمزور استادوں اور سیاستدانوں پر گرجتا برستا ہے۔ وزیراعظم اور ان کے حواریوں کا غصہ بھی صرف کمزوروں پر نکلتا ہے۔ جب مشرف، اسلم بیگ اور اسد درانی جیسے طاقتور سامنے آتے ہیں تو نئے پاکستان کا قانون بھی مکڑی کا جالا ثابت ہوتا ہے۔
کسی بزدل کی صورت گھر سے یہ باہر نکلتا ہے
میرا غصہ کسی کمزور کے اوپر نکلتا ہے
کیا طرفہ تماشا ہے کہ ڈھائی عشروں تک آپ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا ڈھول پیٹتے رہیں، شرفا کی پگڑیاں اچھالتے رہیں، لوگوں کو بدنام کرتے رہیں، ان پر تہمتیں دھرتے رہیں اور دشنام و الزام کا بازار گرم کیے رکھیں اور جب عدالت میں ثبوت دینے کا وقت آئے تو بھیگی بلی بن جائیں۔ ہم تو عمران ہی کی زبان سے تواتر سے سنتے آئے ہیں کہ اصغر خان کیس کا منصفانہ فیصلہ ہو گیا تو ہماری سیاست کی سمت درست ہو جائے گی اور جمہوریت پر شب خون مارنا ممکن نہیں رہے گا۔
وہ یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ اگر اس کیس کے مرکزی کرداروں کو سزا مل جائے تو پھر کوئی طالع آزما وردی پہن کر انتخابات پر اثرانداز نہیں ہو سکے گا۔ مگر افسوس صد افسوس کہ جب اس کیس کے حوالے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کا وقت آیا تو نئے پاکستان والوں کا پِتّہ پانی ہو گیا۔ صاف نظر آرہاہے کہ نئے پاکستان کے بانیوں اور ریاست مدینہ کے دعویداروں نے اس کیس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک کر اپنی بے مائیگی اور کم ہمتی کا ثبوت دیا ہے۔ ہم وزیراعظم سے بقول شاعر یہی گلہ کریں گے کہ
ایسا لگتا ہے کہ کمزور بہت ہے تُو بھی
جیت کر جشن منانے کی ضرورت کیا تھی