گلگت بلتستان میں غیر مقامی افراد کی آباد کاری اور آمد سے مقامی افراد پریشانی کا شکار ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان افراد کی آمد اور آباد کاری کی وجہ سے ان کے علاقے میں جرائم کی شرح اور قوم پرستانہ جذبات بڑھ رہے ہیں۔
گلگت بلتستان کو سی پیک کا گیٹ وے سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں رہنے والے کشمیری اسے اپنا حصے سمجھتے ہیں جب کہ گلگت بلتستان کے قوم پرست اپنے آپ کو کشمیریوں سے مختلف اور آزاد خیال کرتے ہیں۔ تاہم اسلام آباد اور نئی دہلی کا بھی اس علاقے پر ملکیت کا دعویٰ ہے۔ ماہرین کے خیال میں یہ ایک متنازعہ علاقے ہے، جس کی قسمت کا فیصلہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
کئی پاکستانی مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت نے حالیہ برسوں میں اس علاقے کے متنازعہ ہونے کے حوالے سے کچھ زیادہ شور مچانا شروع کر دیا ہے اور اس کی وجہ سی پیک ہے۔ نئی دہلی کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے اور چین یہاں اس طرح سرمایہ کاری نہیں کر سکتا۔ تاہم اسلام آباد سرمایہ کاری سے متعلق بھارتی دعوے کو مسترد کرتا ہے۔
کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں ایسا لگتا ہے کہ یہ خطہ صرف دو ممالک کے درمیان ہی متنازعہ نہیں ہے بلکہ یہاں پر مقامی اور غیر مقامی افراد کا بھی ایک مسئلہ چل رہا ہے اور اس مسئلے میں مزید شدت حالیہ ہفتوں میں اس وقت آئی جب ایک چودہ سالہ لڑکے دیدار حسین شاہ کو اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔اس قتل کے خلاف گلگت بلتستان میں زبردست مظاہر ے ہوئے اور کچھ دنوں پہلے بیس ہزار کے قریب افراد نے اس قتل کے خلاف ایک بڑا احتجاج کیا، جسے ملکی میڈیا نے نظر انداز کیا۔
گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار عامر حسین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے جرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس کی ایک وجہ غیر مقامی افراد کی اس شمالی علاقہ میں آباد کاری اور ہجرت ہے، ’’کوہستان اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں سے محنت کشوں کے علاوہ جرائم پیشہ افراد اور فرقہ وارانہ سوچ رکھنے والے عناصر بھی یہاں آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر اشکون وادی جہاں یہ افسوسناک واقع ہوا ہے، اس میں سن 1988 سے لے کر سن 2009 تک جرائم کی شرح بہت کم تھی۔ لیکن گزشتہ دس برسوں میں بیس سے پچیس کے قریب قتل ہوئے ہیں جب کہ بیس کے قریب زنا بالجبر کے واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں۔ مقامی پولیس کے ریکارڈ کے مطابق تقریبا تمام ہی طرح کے جرائم میں غیر مقامی آبادی ملوث ہے۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے مقامی افراد میں اشتعال پایا جاتا ہے۔ انہیں خطرہ ہے کہ اس آباد کاری سے نہ صرف ان کا سماجی ڈھانچہ تباہ ہوگا بلکہ علاقے میں فرقہ وارانہ جذبات بھی بھڑکیں گے۔‘‘
واضح رہے سابق قبائلی علاقے پارہ چنار کی طرح گلگت بھی شیعہ اکثریتی علاقہ ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاء کے دور سے لے کر اب تک ہزاروں غیر شیعہ افراد کو جی بی میں لا کر بسایا گیا ہے، جس کی وجہ سے یہاں فرقہ وارانہ کشیدگی بھی نوٹ کی گئی ہے۔
اسی کی دہائی میں کچھ شیعہ اکثریتی علاقوں پر منظم حملے ہوئے، جس کے بعد سے لے کر اس علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی لوگوں کو خوفزدہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ حالیہ برسوں میں ایران اور سعودی عرب کی درمیان کشیدہ تعلقات کے پیشِ نظر خیال کیا جا رہا ہے کہ اس کشیدگی کا اثر اس شمالی علاقے پر بھی پڑ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ جی بی کے ہنزہ اور غذر اضلاع میں اسماعیلی شیعہ افراد کی آبادی زیادہ ہے۔ ضلع نگر اور بلتستان ڈویژن کے چاروں اضلاع میں مجموعی طور پر اہل تشیع اکثریت میں ہیں۔ ضلع دیامر اور استور میں سنی اکثریت ہے جب کہ ضلع گلگت، جس میں گلگت شہر بھی آتا ہے، میں سنی اور شیعہ دونوں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
گلگت بلتستان کے قوم پرستوں اور کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ ’اسٹیٹ سبجیکٹ رول‘ کی بحالی اس مسئلے کو حل کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔ یہ رول پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں نافذ ہے، جس کی وجہ سے غیر مقامی کشمیر میں زمین نہیں خرید سکتے۔ برسوں پہلے اس رول کو گلگت میں ختم کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے یہاں غیر مقامی افراد کی بڑی تعداد آباد ہوگئی ہے اور کاروبار کر رہی ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی، گلت بلتستان کے رہنما ظہور الہی کا کہنا ہے کہ اس آباد کاری کے بعد یہاں مدرسوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، ’’اگر یہ تعدا د بڑھتی رہی تو خطے میں کسی فرقہ وارانہ کشیدگی کی صورت میں یہاں بھی اس کے اثرات ہوں گے۔ گلگت کے لوگوں کی فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے بہت تلخ یادیں ہیں۔ لہذا اس صورتِ حال کا ایک حل کچھ لوگوں کے خیال میں یہ ہے کہ ’اسٹیٹ سبجیکٹ رول‘ بحال کیا جائے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت اس کو بحال کرنا نہیں چاہتی۔ کچھ دنوں پہلے تین ارکانِ اسمبلی نے اس رول کو بحال کرنے کے لیے بل گلگت بلتستان اسمبلی میں جمع کرایا تھا لیکن حکومت نے اسے مسترد کر دیا۔‘‘
تاہم گلگت بلتستان کی حکومت اس تاثر کو غلط قرار دیتی ہے کہ غیر مقامی افراد کی وجہ سے جرائم بڑھ رہے ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ گلگت بلتستان کے ترجمان فیض اللہ فراق کا دعویٰ ہے کہ یہ پاکستان دشمن عناصر کا پروپیگنڈہ ہے، ’’ہزاروں کی تعداد میں جی بی کے لوگ کراچی، لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد میں آباد ہیں، کیا وہاں جرائم میں اضافہ گلگت والوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ یہ ایک منفی تاثر ہے اور عوام کو تقسیم کرنے کے لیے اس طرح کا زہریلا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ یہ پاکستان ہے اور ہر پاکستانی کو حق ہے کہ وہ کہیں بھی جا کر رہائش اختیار کرے یا روزگار حاصل کرے۔‘‘–بشکریہ DW.COM