بام دنیا رپورٹ
گلگت: انسانی حقوق کمیشن (ایچ آرسی پی) کے رہنماوں نےگلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرسخت تشویش کا اظہارکیا ہے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ ایس معاملے پرتوجوع دیں۔ یہ بات ایچ.ار.سی.پی کی ایک وفد نے انھوں نے گلگت میں مختلیف سیاسی وسماجی کارکنوں سے ملاقاتوں کے دوران کیا.
وفد ان دنوں گلگت بلتستان کے دورے پرہے۔
وفد کے سربراہ حسین نقی سے گلگت بلتستان کے ممتاز قانون دان اور ترقی پسند رہنماء احسان علی ایڈووکیٹ،قراقرم نیشنل مومنٹ کے چیرمین جاوید حسین، گلگت بلتستان عوامی ورکرز پارٹی کے رہنمائوں اور قوم پرست رہنما ء سلطان مدد، ایڈوکیٹ محمد تقی ،سماجی کارکنان حسنین رمل، فدا حسین ایثاراور دیگر نے خصوصی ملاقات کیں اور آنھیں گلگت بلتستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور خطے کی بہتر سالہ سیاسی محرومیوں پرتفصیلی طور پرآگاہ کیے۔
اس موقع پرحسین نقی جو ایک سینئر صحافی بھی ہیں، نے گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پرافسوس کا اظہارکیا اور گلگت بلتستان کےعوام کی پُرامن سیاسی جدوجہد کی حمایت کیں۔
اُنہوں نے کیا کہ انسانی حقوق کمیشن اس بات سے آگاہ ہے کہ اس وقت گلگت بلتستان پر ایک نو آبادیاتی نظام مسلط ہے اورتمام معاملات نوکرشاہی چلا رہی ہے. جس کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان کےعوام کو اپنے سلب شدہ حقوق کے حصول کیلئے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے اورکسی بھی قسم کی مسلح جہدوجہد کے نظرئے کو مسترد کرتے ہوئے پرامن جمہوری طریقے سے منزل تک پہیچنے کی کوشش کرنا چاہئے۔
اُنہوں نے یقین دلایا کہ انسانی حقوق کمیشن گلگت بلتستان کے حالات سے ارباب اختیارکوآگاہ کریں گی اورانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیئے مطالبہ کرے گی۔
حسین نقی نے گلگت بلتستان میں جاری 72 سالہ سیاسی اورمعاشی جبرکے حل کے لیے وفد میں شامل تمام ترقی پسند اورقوم پرست رہنماؤں سے تجاویز پوچھا جس کے جواب میں تمام ساتھیوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں فوری طور پر ایک آیئن سازعوامی اسمبلی کے لئے انتخابات، اور ایک آزاد عدلیہ کے فوری قیام کی تجویز پیش کیں۔
یاد رہے اقوام متحدہ کے کمشنربرائے انسانی حقوق کے دفترنے 8 جولائی 2019 کوہندوستان اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیراورگلگت بلتستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی تھی اورگلگت بلتستان اوراسلام آباد کے حکام کوکہا تھا کہ وہ سیاسی و سماجی کارکنوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قوانین کا بے جا استعمال بند کرہں اور اس متنازعہ خطے میں انسانی حقوق کو بہتر بنایئں.
رپورٹ نے خاص طور پر عوامی ورکرز پارتی کے مرکزی رہنماء بابا جان اور دیگر سیاسی اسیروں کی طویل سزا پر بھی تشویش کا اظہارکیا تھا. اس رپورٹ کے رد عمل کے طور پر گلگت کے ینسداد دہشت گردی نے اسیر رہنماوئں بابا جان اور قراقرم نینل موومینٹ کے رہنماء افتخار حسین کو ایک اور جھوٹے ایف .ایئ .آر میں سزا سنا دی اور ان کے عمر قید کئ سزا کو 70 سال سے بڑھا کر90 سال کردیا. علوہ اذین آیئ جی جیل خانہ جات نے بابا ضان اور افتخار سے ملاقاتوں پر بھی پابندی عائید کی ہے. صرف خاندان کے 6 افراد کو ملنے کی اجازت ہے. یہ سرارسر انسانی حقوق اور جیل مینول کی کھلم کھلا خلاد ورزی ہے. جس پر شدید تنقید ہو رہا ہے.
علا وہ ازین گزشتہ مہنے ضلع غذرمیں چار نوجوانوں کو 30 مسلح لوگوں نے ہندراپ کے چراگاہ سے اغواء کرکے کوہستان لے گیئے اس پرمقامی لوگوں اور میڈیا پرشدید عوامی ردعمل دیکھنے میں آیا اورمظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوا. مطاہرین نے ہفتہ گزرنے کے باوجود مغویوں کو برآمد نہ کرنے، دراندازوں کے خلاف کاروایی میں مجرمانہ غفلت برتنے پرغذر پولیس اور انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا. پولیس نےاغواکاروں کے خلاف کاروا یئ کرنے کی بجائے مقامی سیاسی کارکنوں کے خلاف انتقامی کاروائی کا سلسہ شروع کیا اور ان کو شوکاز نوتس جاری کیا.