تحریر: محمد عمر خان
کامریڈ انیس ہاشمی غالبّا بر صغیر کے ان چند انقلابی رہنمائوں میں سے تھے جو زندگی بھر اپنے ادرشوں پر کاربند رہے اور سوشلسٹ سماج کی تعمیر کے لئے جدوجہد کرتے رہے.اور کبھی بھی اپنے نظریات اور اصولوں پر سمجھوتہ بازی نہیں کیں.ان کا سارا خاندان انقلابی تحریک سے وابستہ تھے اور آج بھی ہیں-
ہاشمی صاحب 16 جنوری 1916ء کو دہلی کے ایک درمیانہ طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے میں پیدا ہوئے- انھوں نے تعلیم دہلی شہر میں ہی حاصلِ کیں اور دہلی یونیورسٹی سے ایم اے معاشیات میں اول درجے سے پاس کیا-
ان کے والد ادریس ہاشمی پیشہ کے لحاظ سے استاد تھے، جبکہ تایا سبحان الہند مولانا احمد سعید ہاشمی جعمیت علماء ہند کے سیکریٹری جنرل اور صدر منتخب ہوئے-ان کی والدہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (CPI) کی سرگرم کارکن تھیں اور پارٹی کے شبعہ خواتین کی دہلی شہر کی صدر تھیں – ن کو پارٹی میں کامریڈ بی اماں کے نام پکارا جاتا تھا-
انیس ہاشمی صاحب اپنے دو بھایئوں مین سب سے بڑے تھے. دوسرے نمبر پر حنیف ہاشمی، اور سب سے چھوٹے بھائی حمید ہاشمی تھے-
تقسیم ہند کے بعد انیس ہاشمی پارٹی کے حکم پر پاکستان کے شہر لاہور تشریف لے آئے اور پھر اس شہر کو اپنا مسکن بنا لیا-
ان کے ساتھ چھوٹے بھائی حمید ہاشمی بھی پاکستان آئے تھے جو پیشہ کے لحاظ سے صحافی تھے – حمید ہاشمی مصر کے شہر قاہرہ کے قریب ایک ہوائی جہاز کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے-
انیس ہاشمی اپنے چھوٹے بھائی کی اس اچانک حادثاتی موت کی وجہ سے بہت دل برداشتہ ہوئےاور کراچی منتقل ہوگئے اور پھر زندگی کی آخری سانسوں تک اسی روشنیوں کے شہر میں مقیم رہے-
جبکہ حنیف ہاشمی دہلی میں ہی مقیم رہے جن کے دو بیٹے صفدر ہاشمی، سہیل ہاشمی تھے اور ایک بیٹی شبنم ہے جو اج بھی سیاسی طور پر سرگرم ہئں-
صفدر ہاشمی کشمیر یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد تھے اور کمیونسٹ پارٹی انڈیا ( مارکسسٹ) کے سرگرم رکن اور پارٹی کلچرل ونگ کے صدر تھے-
انہیں دہلی شہر میں کانگریسی غنڈوں نے اس وقت قتل کر دیا تھا، جب وہ اپنے تھیٹرگروپ کے ساتھ ایک کھیل پیش کر رہے تھے- ان کی اس المناک موت پر ہندوستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ان کے سوگ میں تین دن تک بند رہی تھی-
صفدر ہاشمی نے تین ہزار سے زائد اسٹریٹ ڈرامے اور انقلابی گیت لکھے –
جوان بھتیجے کی اس شہادت پر ہاشمی صاحب بہت دکھی تھے، مگر آنہوں نے یہ دکھ اور صدمہ کسی پر ظاھر نہیں ہونے دیا- جبکہ صفدر کے بڑے بھائی سہیل ہاشمی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے دہلی شہر کے سکریٹری جنرل تھے-
کمیونسٹ پارٹی انڈیا کو جب پوری طرح ادراک ہو گیا کہ تقسیم ہند کا فیصلہ ہو چکا ہے، بس اب رسمی کاروائی ہونا باقی رہ گئی ہے، تو پھر سی پی آئی کے اعلیٰ ترین فورم میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پارٹی کے کچھ ہندو کامریڈز کو کانگریس اور مسلمان کامریڈز کو مسلم لیگ میں بھیجا جائے- چنانچہ پارٹی نے کامریڈ انیس ہاشمی کو آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہونے کا حکم صادر کیا، جس کے صدر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح تھے- ہاشمی صاحب نے پارٹی کے فیصلے کی تعمیل کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی- بہت سے ینقلابیوں اور بایاں بازو کے کارکنوں کو پارٹی کے اس فیصلے پر اعتراض ہو سکتا ہے، مگر انیس ہاشمی نے پارٹی ڈسپلن کی پابندی کی-.
آل انڈیا مسلم لیگ نے انیس ہاشمی صاحب کو دہلی کے اجلاس میں صوبائی جنرل سیکرٹری اور نوابزادہ جسٹس قدیرالدین احمد جو بعد میں شندھ ہائے کورٹ کے جج بنے، کو صوبائی صدر منتخب کر لیا-
ہاشمی صاحب نے جن قد آور سیاسی شخصیات کے ساتھ CPI میں کام کیا، ان میں پارٹی کے جنرل سیکرٹری کامریڈ ڈانگے، ڈاکٹر ادھیکاری جو کہ آئن اسٹائن کے سب سے ذہین شاگردوں میں سے ایک تھے اور مقیم الدین فاروقی قابل ذکرِ ہیں- جب کے مسلم لیگ میں اپ نے جن اہم سیاسی شخصیات کے ساتھ کام کیا ان میں قائداعظم محمد علی جناح ، خان لیاقت علی خاں اور جسٹس قدیر کے نام قابل ذکر ہیں – اس کے علاوہ مولانا حسرت موہانی، گاندھی جی، جواہر لعل نہرو وغیرہ شامل تھے- ہندوستان کے پہلے مسلمان صدر ڈاکٹر ذاکر حسین آپ کے بہت اچھے دوستوں میں سے ایک تھے-
1980ء کی دہائی میں بی بی سی ( BBC ) نے دنیا میں قائم برطانوی نوآبادیات سے آزادی حاصل کرنے والے ممالک پر مبنی ایک دستاویزی فلم بنانے کا فیصلہ کیا تھا- اس فلم کے بنانے کا مقصد پوری دنیا میں ان حریت پسندوں پر مبنی حقائق کو پوری دنیا کے سامنے لانا تھا، جنہوں نے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا- بی بی سی نے اس فلم کو اینڈ آف دی ایمپائر ( End of The Empire ) کے نام سے بنایا تھا، یہ فلم آج بھی youtube پر موجود ہے- اس فلم میں ہندوستان کی آزادی سے متعلق مواد کا تقریباً چالیس منٹ کا دورانیہ کامریڈ انیس ہاشمی اور میاں ممتاز دولتانہ کے انٹرویوز پر مشتمل ہے-
اصل میں ہوا یوں کہ جب بی بی سی کی ٹیم اس سلسلے میں ہندوستان کے سابق وزیراعظم آنجہانی مرار جی ڈیسائی کا انٹرویو لینے ہندوستان گئی تو انہوں نے بتایا کہ اگر آپ آزادی کی تحریک سے متعلق پاکستان میں کسی کا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں، تو میں ایک نام تجویز کرتا ہوں اور وہ ہے کامریڈ انیس ہاشمی صاحب کا-
اس دستاویزی فلم کے ڈائریکٹر نے ان سے سوال کیا کہ انیس ہاشمی میں ایسی کیا خاص بات ہے جو ان کو اس فلم میں لیا جائے؟ اس پر مرار جی ڈیسائی نے بتایا کہ کامریڈ انیس ہاشمی آل انڈیا مسلم لیگ کے وہ رہنما ہیں، جنہوں نے اپنی اصل جماعت کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا کے فیصلے کے مطابق 1944ء میں ہونے والی نیوی کی بغاوت کی ایک پریس کانفرنس کے ذریعے حمایت کا اعلان کر کے ہندوستان کی سیاسی آزادی کی تحریک میں بھونچال برپا کر دیا تھا- اور اس سلسلے کی قرارداد کو انہوں مسلم لیگ کی صوبائی کمیٹی کے اجلاس میں منظور کروا لیا تھا-
اس بیان کے بعد مسلم لیگ اور حکومت برطانیہ میں کھلبلی مچ گئی تھی-اور محمد علی جناح کو اپنا پونا کا دورہ مختصر کر کے فوری طور پر دہلی آنا پڑا تھا- قائدِاعظم نے انیس ہاشمی کو پارٹی کے مرکزی سکریٹریٹ آفس میں طلب کیا اور بیان واپس لینے کا حکم دیا- کامریڈ ہاشمی نے ایسا کرنے سے معذرت کی، جس پر جناح کو ازخود تردیدی بیان جاری کرنا پڑا تھا- اس کے بعد بی بی سی کی ٹیم نے ہاشمی صاحب کو اس تاریخی فلم میں لینے کا فیصلہ کیا-
ایک واقعہ مختصراً اپ کی نظر کرتا چلوں کہ 1945ء میں دوسری جنگ عظیم میں اتحادی افواج نے جب فاشسٹ قوتوں کو شکست دے دی تو برطانوی حکومت نے ہندوستان میں تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ کیا، مگر مسلم لیگ کے کیپٹن رشید احمد اور کچھ مسلم لیگی کارکنوں و رہنماؤں کو رہا نہیں کیا – اس پر جناح نے مسلم لیگ دہلی کے سکریٹری کامریڈ انیس ہاشمی کو ایک خط لکھا اور ان کو کہا کہ ایک تو میں آپ کو یہ ذمہ داری دے رہا ہوں کہ آپ کیپٹن رشید رہائی کمیٹی کی سربراہی کریں اور دوئم انگریز سرکار جنگ میں فاتح ہونے کی وکٹری پریڈ منعقد کرنا چاہتی ہے، یہ پریڈ منعقد نہیں ہونا چاہئیے-
کامریڈ ہاشمی نے اگلے ہی روز دہلی مسلم لیگ کا اجلاس طلب کیا اور اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پریڈ سے قبل احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا- جس کی قیادت کی ذمہ داری مسلم لیگ دہلی کے صوبائی صدر جسٹس قدیر الدین نے کرنی تھی- مگر وہ ناگزیر وجوہات کی بناء پر تشریف نہیں لا سکے، لہذا قیادت کرنے کا قرعہ کامریڈ انیس ہاشمی کے نام نکلا- برطانوی حکومت نے دہلی شہر اور اس کے ساتوں دروازے بہت خوبصورتی سے سجائے تھے- اس فتح کے جشن میں شاندار فوجی پریڈ منعقد ہونا تھی، مگر پریڈ سے ایک روز قبل ہاشمی صاحب کی قیادت میں زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا- مشتعل مظاہرین نے دہلی شہر کے ساتوں دروازے توڑ ڈالے اور وکٹری یریڈ منعقد نہ ہو سکی-
انیس ہاشمی سمیت 100 سے زائد مسلم لیگی کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ان کو ایک سال سے تین سال تک کی سزائیں ہوئیں، مگر اس فوجی عدالت نے کامریڈ انیس ہاشمی کو سات سال قید بامشقت کی سزا سنائی- مگر کیپٹن رشید اور ان کے ساتھ گرفتار تمام مسلم لیگی کارکنوں کو فوری طور پر رہا کر دیا گیا- وہ تو انیس ہاشمی کی قسمت اچھی تھی کہ انگریز سرکار نے ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آزاد کرنے کا فیصلہ کر لیا- جس کی وجہ سے ہاشمی صاحب اور باقی مسلم لیگی کارکنوں کو برطانوی حکومت نے رہا کر دیا –
قیام پاکستان کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (CPI) نے دنیا کے نقشے پر ابھر نے والے نئے ملک پاکستان میں پارٹی کو منظم کرنے کی ذمہ داری سید سجاد ظہیر ( بنے بھائی) کو سونپی- میں اس فیصلے پر کچھ نہیں کہنا چاہتا مگر میں اتنی جسارت ضرور کروں گا کہ پنجاب میں سی آر اسلم اور سندھ میں کامریڈ سوبھو گیان چندانی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی سینٹرل کمیٹی کے ممبر موجود تھے-
سجاد ظہیر صاحب کو ایک اجلاس میں پارٹی کا سکریٹری جنرل منتخب کیا گیا اور پاکستان چیپٹر کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اعلان کیا گیا- اس میں کامریڈ انیس ہاشمی کا نام شامل تھا، اس لئے آپ کو پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے-
میاں افتخار الدین کی بہن کی شادی کی تقریب میں اس وقت کے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان صاحب سے آپ کی ملاقات ہوئی تو لیاقت علی خان نے گلہ کیا کہ "انیس میاں میں نے آپ کو ذاتی حیثیت میں بھی کئی بار ملنے کا پیغامِ بھیجا، مگر آپ نے شرف ملاقات نہیں بخشا، کیا کوئی ناراضگی ہے؟”
ہاشمی صاحب نے فرمایا، "ہم نے جس آزادی کی جدوجہد کی اس کا ایجنڈا ابھی نا مکمل ہے- یہ ملک پاکستان حقیقی معنوں تب آزاد ہوگا، جب یہاں پر اس ملک کی عوام کی حکمرانی ہوگی ورنہ تو آپ سمجھ لیجیے کہ انگریزوں سے آذادی کے بعد ان کے پروردہ کالے انگریزوں کی بد ترین غلامی کرنا پڑے گی اور یہ کہہ کر وزارت کی پیشکش کو ٹھوکر مار دی-”
کراچی میں انیس ہاشمی نے فردوس کالونی ناظم آباد میں مستقل سکونت اختیار کی – شروع میں آپ نے مقبول کمپنی میں سنیر منیجر کی پوزیشن پر خدمات سر انجام دیں- یہ گھی بنانے والی فیکٹری تھی، مگر ہاشمی صاحب نے جلد ہی یہ فیصلہ کیا کہ اپنا کاروبار شروع کیا جائے – اس سلسلے میں آپ نے کراچی میں تولیہ بنانے کی فیکٹری لگائی اور فیصل آباد میں ٹیکسٹائل مل لگائی-
اس کام میں آپ کو توقع سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی- آپ ذیادہ تر مال ایکسپورٹ کوالٹی کے لئے بناتے تھے اور زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی – مگر بار بار جیل یاترا کی وجہ سے دھیرے دھیرے کاروبار میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور حکومت نے بھی جان بوجھ کر کئی قسم کے مسائل پیدا کرنا شروع کر دیئے-
بحرحال بار بار گرفتاریوں کی وجہ سے کام دھندا تباہ ہونا شروع ہوا، جس کے نتیجے میں آپ کے گھر کی نیلامی کے لئے سی بی آر نے اشتہار اخبارات میں شائع کرادیا اور جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں باقاعدہ ان کے بزنس کو فوجی حکومت نے نشانہ بنایا- یہاں تک کہ انیس ہاشمی کے گھر فاقوں کی نوبت آ گئی- مگر عزم و ہمت کے کوہ گراں اس عظیم انسان نے کبھی کسی سے حرف سوال نہیں کیا- ان کی فیملی میں انتہائی فاقہ کشی کی صورتحال کی وجہ سے مزید مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے، ان کے چھوٹے بیٹے اور رفیق حیات نے بھی ایسے وقت میں ان کا ساتھ چھوڑ دیا- مگر انھوں نے غربت و افلاس کے باوجود ہار نہیں مانی اور اس ظالمانہ طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہد جاری رکھی-
اس جدوجہد میں اپ نے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں، مگر اپنے سوشلسث انقلابی نظریہ سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے – اس سیاسی جدوجہد میں ان کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری-
انھوں نے عملی سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ قلم کی لڑائی بھی جاری رکھی اور 30 سال تک روزنامہ "جنگ” اور روزنامہ "امن” میں فوجی آمریتوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے بے رحمانہ استحصال کے خلاف پوری شد و مد سے کالم لکھتے رہے-
آن کے اخباری مضامین پر مبنی کتابیں بھی شاںع ہوئیں – ان میں "وطن کی پچس بہاریں” ، "کچھ ہم سے سنا ہوتا” اور "دیوانے لوگ” وغیرہ جیسی کتابیں شامل تھیں-
کامریڈ انیس ہاشمی کو اسی دوران کینسر جیسا موضی مرض بھی لاحق ہو گیا- مگر آنھوں نے اپنی عظیم سیاسی جدوجہد کے راستے میں اس بیماری کو حائل نہیں ہونے دیا- اس دوران سوشلسث پارٹی میں سیاسی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے تھے – یہ کوئی ذاتی اختلافات نہیں تھے بلکہ پارٹی میں موجود کچھ افراد کے ذاتی مفاد و گھناؤنے مقاصد کے خلاف اصولی و نظریاتی موقف رکھنے والے گروہ کے سیاسی اور تنظیمی نوعیت کے تھے-
کامریڈ انیس ہاشمی نے پوری کوشش کی کہ پارٹی تقسیمِ ہونے سے بچ جائے، مگر 1987ء میں سوشلسث پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی.