Baam-e-Jahan

وادی کیلا ش کا قدیم ترین کھیل ‘ہمغال’ بے توجہی کا شکار

کیلاش کے آخری گائوں شیخاندہ میں صدیوں سے کھیلے جانے والا برفانی ہاکی کو ابھی تک حکومتی سرپرستی حاصل نہ ہوسکی۔

رپورٹ: گل حماد فاروقی

چترال : وادی کیلاش کے آخری گاؤں شیخانندہ میں برف پوش میدان میں صدیوں سےکھیلا جانے والا دلچسپ کھیل کے مقابلے جاری ہیں – اس کھیل کو کھوار زبان میں ‘ہیم غال’، اردو میں ‘برفانی ہاکی’ اور انگریزی میں ‘اسنو ہاکی’ کہا جاتا ہے-

گزشتہ دنوں سیمی فائنل کا میچ برون اور کڑاکاڑ ٹیم کے درمیان کھیلا گیا جس میں برون ٹیم نے چار کے مقابلے میں نو گولوں یعنی نو Points سے اسے شکست دی۔

سیمی فائنل کے بعد وادی میں بارف باری کا سلسلہ شروع ہوا اور اب فائنل میچ کا انحصار موسم پر ہے. کھلاڑیوں کو شدت سے انتظار ہے کہ کب موسم صاف ہو تاکہ وہ آخری معرکہ سر کرکے ایک دن کیلئے وادی میں مہتر یعنی بادشاہ بن جائے۔

یہ نہایت مخصوص انداز اور نرالی اصولوں کے مطابق کھیلا جاتا ہے- یہ واحد کھیل ہے جس کا پچ ساڑھے تین کلومیٹر لمبا ہوتا ہے اور ایک گول سات کلومیٹر کا چکر کاٹنے سے پورا ہوتا ہے۔

اس کھیل میں بیک وقت دو ٹیمیں کھیلتے ہیں اور ہر ٹیم پچیس سے تیس کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔اس کھیل کو صدیوں سے شیخانندہ اور وادی کیلاش کے مکین کھیلتے آرہے ہیں۔ اس میں بیک وقت دونوں ٹیموں کے کپتان لکڑی کا بنا ہوا گیند جسے کالا رنگ دیا جاتا ہے لکڑی کے مخصوص ہاکی سے کھیلتے ہیں۔

جب کوئی کھلاڑی گیند نہایت زور سے مارکر آگے پھینکتا ہے تو ساتھ ہی دوسرے ٹیم کا کپتان یا کھلاڑی بھی اسی انداز میں گیند کو زور سے مارتا ہے۔ ہر ٹیم کے کھلاڑی ہر پانچ سو میٹر کے فاصلے پر کھڑے ہوتے ہیں اور ہاتھوں میں زرد رنگ کے جھنڈے پکڑے ہوئے ریفری بھی ہر پانچ سو میٹر کے فاصلے پر کھڑے ہوتے ہیں جو اس کھیل کی نگرانی اور فوری فیصلہ کرتے ہیں۔

برفانی ہاکی کھیلنے کیلئے برف سے ڈھکے میدان میں مشرق اور مغرب کی طرف ایک مخصوص مقام پر دو لکڑی ٹانک کر نشان لگایا جاتا ہے تاکہ ان دونوں لکڑیوں کے درمیان میں سے بال گزار کر گول کیا جاسکے اور جب کوئی کھلاڑی ان دونوں لکڑیوں کے درمیان میں سے بال گزارتا ہے تو ایک پوائنٹ شمار ہوتا ہے یعنی ایک گول ہوجاتا ہے۔

اس کھیل کا انداز بھی نہایت عجیب و غریب ہوتا ہے۔ میچ شروع ہوتے ہی باری باری دونوں ٹیموں کے کپتان گیند کو مارتے ہیں اور اپنے اپنے ٹیموں کے اگلے ساتھیوں کو اسے پھینک دیتا ہے۔ ہر ٹیم کا کھلاڑی اسی بال کو ڈھونڈ کر ہاکی میں گول سوراخ جیسا کندا کیا جاتا ہے اسی کی مدد سے برف سے نکالتا ہے تاہم اس بال کو ہاتھ یا پاؤں لگانا منع ہے اگر کسی نے غلطی سے بھی اسے ہاتھ سے پکڑ کر برف سے باہر نکالا تو وہ اس ٹیم کا ایک گول ضائع ہوتا ہے اور مخالف ٹیم کو ایک گول یعنی ایک پواینٹ دیا جاتا ہے۔

دونوں ٹیموں کے کھلاڑی اپنا اپنا گیند آگے پھینکتے ہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ میچ شروع ہوتے ہی جج صاحبان موقع پر موجود ہوتے ہیں اور ہر بال میں چاقو کی مدد سے مخصوص نشان لگاتے ہیں تاکہ یہ بال ایک دوسرے ٹیم کے ساتھ بدل نہ جائے اور یہ سلسلہ ہر بار گیند ابتدا ئی نقطہ سے پھنکتے وقت جاری رہتا ہے یعنی ہر بار گول کرنے کے بعد جب دوسرا گیند پھینکا جاتا ہے تو اس پر بھی ہر مرتبہ مخصوص نشان لگایا جاتا ہے تاکہ ہر ٹیم کا اپنا گیند الگ پہچانی جا سکےاور اسے اسی ٹیم کے کھلاڑی آگے کرسکیں۔

جب ہر ٹیم کے کھلاڑی اپنا اپنا گیند ہاکی سے مارتے اور دوسرے ساتھی کو پاس کرتے ہوئے آگے لے کر جاتے ہیں تو دوسرے سرے میں بھی دو مقامات پر لکڑی نصب ہوتے ہیں اور آخری پوانٹ پر کھلاڑی ہاتھ سے بھی بال کو پکڑ کر پچ کے درمیان یعنی ان دو لکڑیوں کے درمیان میں سے گزار کر واپس اسی مقام سے شروع والے پوا ئینٹ کی طرف گیند کو مارتے ہیں۔
جس ٹیم کا گیند شروع سے لیکر آخری سرے تک جاتا ہے اور وہاں سے پھر شروع والے مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس کا ایک گول یعنی ایک پوائنٹ شمار ہوتا ہے اور اسی ٹیم کا کپتان دوسرے گند پر جیوری کے اراکین میں سے نشان لگواکر پھر پھینکتاہے-

مزے کی بات یہ ہے کہ اگر دوسرے ٹیم کا گیند واپس نہیں بھی آیا ہو اس کے باوجود بھی دوسرا ٹیم اپنےگیند پر جوری کے اراکین سے نشان لگواکر پھینکتا ہے اور جب اس کا پہلا گیند واپس اسی جگہ پر پہنچ جاتا ہے تو اس کا بھی ایک گول یعنی ایک پواینٹ شمار ہوتا ہے۔

یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور ہر ٹیم کی کوشش ہوتی ہے کہ جلدی جلدی سے اپناگیند آگے کی طرف پھینک کر اپنے دیگر ساتھی تک پہنچائے اور وہ اسے آگے پاس کرتا جائے جس ٹیم کے زیادہ گیند شروع سے لیکر آخری جگہ سے واپس شروع والے جگہ پر پہنچ جاتا ہے تو اس ٹیم کے اتنے ہی گول شمار ہوتے ہیں۔

اس ٹورنامنٹ کے آرگنائزر محفوظ اللہ نے بام جہان اور ہائی ایشیاء ہرالڈ کے نمائندے کو بتایا "کئی سو سال پہلے جب لوگ نورستان سے ہجرت کرکے چترال آئے تو اپنے ساتھ برفانی ہاکی کا کھیل بھی ساتھ لائے”۔

"اس کھیل کو چھوٹے بڑے سب نہایت شوق سے کھیلتے ہیں اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔یہاں کے لوگوں نےاس کھیل کو آج تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن حکومت کی طرف سے اس کو پروان چڑھانے کے لئے کوئی کوشیش نیہں کیا گیا.”

جو کھلاڑی جتنا زور سے گیند کو مارکر آگے پھینکتا ہے اتناہی اس کا جذبہ بڑھ جاتا ہے اور مخصوص انداز میں چھلانگ بھی لگاتا ہے اور ساتھ ہی آواز بھی لگاتا ہے۔

جب میچ ختم ہوتا ہے تو جیتنے والے ٹیم سے ایک کھلاڑی یا کپتان کو ایک دن کیلئے وادی کا بادشاہ بنایا جاتا ہے جسے مقامی زبان میں ‘مہتر’ کہا جاتا ہے۔ وہ حکم دیتا ہے کہ وادی کے تمام لوگ اس کو ماننے کا پابند ہیں۔ وہ اپنی طرف سے ایک بیل ذبح کرتا ہے اور لوگوں کی ضیافت کراتا ہے۔

برفانی ہاکی کھیلنے کیلئے اکثر کھلاڑی مخصوص طرز کا بوٹ پہنتے ہیں تاکہ برف اس کے اندر نہ جائے۔

ماضی میں اس کھیل کے دوران نہ تو کوئی تماشائی نہ راہگیر گیند کی نشان دہی کرسکتا تھا اور جب گیند برف میں تیزی سے گر جاتا توبعض اوقات کھلاڑی اس کو ڈھونڈنے میں کئی منٹ لگادیتے – مگراس بار جیوری کمیٹی نے اس میں تھوڑی نرمی پیدا کی ہے اب کوئی بھی کھلاڑی یا تماشائی گیند جہاں برف میں گر جاتا ہے اس کی نشان دہی کرسکتا ہے۔

جب کھلاڑی گیند کو آگے بڑھاتا ہے تو دوسرا ساتھی اس کو ہاکی کی مدد سے برف سے باہر نکال کر مناسب جگہ پر برف کا ٹیلہ سا بناکر اس پر رکھ دیتا ہے تاکہ مارنے میں آسانی ہو اور پھر نہایت زور سے اسے ہاکی سے مارکر آگے کی طرف بڑھاتا ہے۔

فضل ربی جو برون ٹیم کا نائب کپتا ن بھی ہے، نے بتایا کہ وہ پچھلے چالیس سالوں سے یہ کھیل میں حصہ لے رہا ہے-

ان کا مزید کہنا ہے کہ اس کھیل کو پروان چڑھانے اور جدید انداز میں ترقی دینے کیلئے حکومت کی طرف سے کوئی بھی مالی یا تیکنیکی امداد نہیں دیا جاتا۔

نورستان ایک نوجوان کھلاڑی جس کا تعلق کراکاڑ ٹیم سے تھا نےکہا کہ اس کھیل میں کیلاش اور دوسرے عقیدے کے لوگ اکھٹے کھیلتے ہیں اور ابھی تک کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ محکمہ سیاحت خیبر پختونخواہ کا سیاحت کو فروغ دینے کے بلند بانگ دعووں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس انوکھا کھیل کو ترقی دینے کیلئےصوبائی حکومت کی طرف سے کوئی بھی امداد نہیں دیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی حکومتی اہلکار اس مو دیکھنے آتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت تھوڑی سی توجع دے تو اس کھیل کو دیکھنے کیلئے دنیا بھر سے سینکڑوں سیاح یہاں آئیں گے اور اس سے وادی کی معیشت پر نہایت مثبت اثرات پڑیں گے۔

امیر حمزہ ایک نہایت ضعیف العمر کھلاڑی ہے ان کا کہنا ہے کہ اس کھیل کیلئے کوئی باقاعدہ سٹیڈیم یا میدان موجود نہیں ہے اور وہ لوگوں کے کھیتوں میں یہ کھیل کھیلتے ہیں۔

شیر عالم نامی کیلاش کھلاڑی نے بتایا کہ ان کھیتوں میں پتھر بھی پڑے ہوتے ہیں، کھڈے اور نالیاں بھی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے کھیل کے دوران کھلاڑی پتھر سے بھی ٹکرا سکتا ہے یا نالے، کھڈے میں گر کر اس کا ہاتھ پاؤں بھی ٹوٹ سکتا ہے جس کیلئے نہ تو یہاں کوئی ایمبولنس موجود ہے اور نہ طبعی عملہ یہاں تک کے اس وادی کے واحد ہسپتال میں بھی کوی ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔

کیلاش قبیلے کا مذہبی رہنماء یعنی قاضی کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ چترال کی خوبصورتی اور سیاحت کو فروغ دینے کیلئے پچاس کروڑ روپے منظور کئے گئے ہیں وہ پیسے کہاں جاتا ہے ہم نے ابھی تک ایک پیسہ بھی نہیں دیکھا۔

کیلاش کے لوگوں نےصوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ صدیوں سے یہاں کھیلے جانے والا بین الاقوامی اہمیت کے حامل اس کھیل کو فروغ دینے کیلئے باقاعدہ کھیل کا میدان تعمیر کیا جائے اور یہاں تک آنے والی سڑک کو کشادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دونوں جانب حفاظتی دیوار بھی تعمیر کیا جائے تاکہ گاڑی نیچے گرنے کا حطرہ نہ ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے