Baam-e-Jahan

کورونا وباء سے ہم نے کیا سیکھا؟


تحریر: اسرارالدین اسرار


کوٸی بھی انسانی معاشرہ جب بھی کسی اجتماعی مشکل سے دوچار ہو جاتا ہے وہ اس سے کچھ بنیادی اسباق حاصل کرلیتا ہے جن پر عمل کر کے وہ اپنی اجتماعی تعمیر و ترقی کو یقینی بناتا ہے۔ کورونا کی وبا ٕ بھی ایک دن ضرور ختم ہوگی مگر اس وبا ٕ سے ہمیں آٸندہ کے لیۓ جو اسباق ملے ہیں ان کو یاد رکھنا ضروری ہے۔

١۔ انسانی زندگی کی بقا اور ترقی کا انحصار صحت مند معاشرے پر ہے اس لۓ سالانہ ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ صحت کے شعبہ پر خرچہ ہونا چاہیے۔
٢۔ صحت اور تعلیم کے شعبے اصل قومی ترجیحات ہونے چاہیے۔
٢۔ حفظان صحت کے بنیادی اصولوں کو نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔
٤۔ صحت سے متعلق اجتماعی رویوں میں تبدیلی کے لۓ موثر قومی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔
٥۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ اپنی روزانہ کی نشریات کا کم از کم پچیس فیصد وقت صحت سے متعلق پروگرامز کے لۓ وقف کردے ۔
٦۔ میڈیکل ساٸینس کی تعلیم اور تحقیق کے لۓ معیاری ادارے قاٸم کرنے کی ضرورت ہے۔
٧۔ ڈاکٹرز ، نرسسز اور پیرا میڈیک کے شعبہ سے وابسطہ افراد کو قومی سطح پر عزت و تکریم دی جاۓ۔
٨۔ تمام سرکاری ملازمین بشمول پولیس اور دیگر فورسسز کی تربیت میں حفظان صحت کے بنیادی اسباق شامل ہونے چاہیے۔
٩۔ مقابلے کے امتحانات میں حفظان صحت سے متعلق سوالات شامل کیۓ جانے چاہیں۔
١٠۔ آلودگی سے بچنے کے لۓ کام کی جگہوں مثلا کارخانوں، فیکٹریوں اور پبلک مقامات میں ماسک کا استعال لازمی قرار دیا جاۓ۔ نیز مزدور ،تنخواہ دار ، غریب اور دیہاڈی دار طبقے کے لۓ سرکاری سطح پر ہیلتھ انشورنس کا بندوبست ہونا چاہیے۔
١١۔ روزانہ کٸی دفعہ صابن سے ہاتھ دھونا قومی مزاج بنا نا چاہیے۔
١٢۔ ہاتھ اور گلے ملنے کی روایت کو ختم نہیں تو کم کیا جانا چاہیے۔
١٣۔ ہر بینک، دفتر، ہسپتال اور دیگر پبلک مقامات میں سیناٹاٸزر کی دستیابی اور استعمال لازمی قرار دیا جاۓ۔
١٦۔ جنرل سٹورز ، سبزی کی دکانوں، بیکریز، ہوٹلز اور دیگر کھانے پینے کی چیزیں بیچنے والوں کو پابند کیا جاۓ کہ وہ کام کے دوران دستانوں کا استعمال لازمی کریں۔
١٥۔ سڑکیں ، دفاتر، پبلک مقامات، بازار، اسپتال، بینک،سکول اور دیگر مقامات میں صفاٸی کے مثالی معیارات پر عملدرآمد کے لۓ لاٸحہ عمل بنانا چاہیے۔
١٦۔ قدرتی آفات جب نازل ہوتی ہیں تو وہ عقیدہ، نسل ، رنگ ، زبان، علاقہ ، فرقہ اور دیگر تفرقات میں تمیز نہیں کرتی اس لٸے اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ مشکل وقت کے لۓ مل کر پالیسیاں بناٸی جاٸیں۔

نوٹ۔ ہم اگر صحت اور خوراک سے متعلق اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں میں ساٸنسی بنیادوں پر تبدیلی لانے میں ناکام ہوگۓ تو ذہنی اور جسمانی بیماریوں سے نسل در نسل چھٹکارا حاصل نہیں کر سکیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں