ندا اسحاق
اارتقائی نفسیاتی ماہرین (evolutionary psychologist) کہتے ہیں کہ جب انسان شکار (hunter gatherer) کرتا تھا، جنگل میں اس کے سامنے کوئی خون خوار جانور آجاتا تو اپنی جان بچانے کے لیے وہ فلائٹ فائٹ (flight fight) موڈ میں چلا جاتا. ڈر، خوف اور مستعدی نے انسان کی بقاء میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے. اب فرض کریں جنگل کی جگہ چار دیواری ہے اور آپ کے سامنے کئی گنا طاقتور مخلوق ہے جس سے آپ مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے، وہ چیختا ہے چلاتا ہے، فلائٹ–فائٹ موڈ آن ہوجاتا ہے، خطرہ ہے، جان بچانی ہے لیکن آپ چاردیواری چھوڑ کر بھاگ نہیں سکتے، وہ آپ کو جان سے نہیں مارتا لیکن ڈر، خوف اور مستعد رہنے کا یہ سلسلہ کئ سال جاری رہتا ہے. آپ کا دماغ اس ماحول کے مطابق مختلف طریقئہ کار (mechanisms) تیار کرلیتا ہے اور یوں اس نئے ماحول میں مطابقت پیدا ہوجاتی ہے جس کے نقصانات یقیناً ان گنت ہیں.
اوپر دی گئی وضاحت میں ‘آپ’ کی جگہ ایک چھوٹا ناتواں بچہ، طاقتور مخلوق کی جگہ ‘والدین’ تصور کرلیں.
سائیکاتھرپسٹ (psychotherapist) فلپا پیری اپنی کتاب The Book You Wish Your Parents Had Read by Phillipa Perry’ میں لکھتی ہیں آپ کا ماضی (بچپن) آپکا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتا. ہم جب بھی بچوں سے زیادتی کی بات کرتے ہیں ہمارے ذہنوں میں جسمانی یا جنسی زیادتی سے متعلق باتیں آتی ہیں لیکن جذباتی زیادتی (emotional abuse) جس سے دنیا میں سب زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں، کے متعلق کچھ خاص سننے کو نہیں ملتا. ڈاکٹر Pete Walker اسے "epidemic of poor parenting” کہتے ہیں.نفسیاتی ماہرین کے مطابق نفسیاتی زیادتی کا نقصان جسمانی اور جنسی زیادتی کے برابر یا اکثر اوقات اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے. یعنی نفسیاتی زیادتی سے ملنے والے ان دیکھی زخم حد درجہ مہلک ہوتے ہیں. بنا ہاتھ لگائے بھی بچوں کی روح کا قتل کیا جا سکتا ہے جسے ڈاکٹر لیونارڈ نے روح کے قتل کا نام دیا ہے. اس زیادتی میں کسی باہر والے کا ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ ہمارے اپنے والدین ہی ذمہ دار ہوتے ہیں.
جزباتی یا نفسیاتی زیادتی کے کوئی نشان نہیں ہوتے اور اکثر صدمے سے دوچار ہونے والے بچے شعوری طور پر اپنے بچپن کو بھول جاتے ہیں، (لیکن لاشعوری طور پر نہیں) . زیادتی کا یہ سلسلہ خاص انداز (pattern) کے تحت لمبے عرصے تک جاری رہتا ہے. سخت تنقید، غیر حقیقی امیدیں، بچوں کے احساسات کی نفی، نظرانداز کرنا، غفلت، ضرورت سے زیادہ نظم و ضبط کا پابند بناتا, پرفیکشن ازم (perfectionism), بہن بھائیوں یا دوسرے بچوں سے سخت موازنہ، حقارت جیسے رویئے کئ سال تک رواں رہتے ہیں. انسانی بچہ جو سوشل لرننگ مشین کی مانند ہوتا ہے، ہر وقت فلائٹ-فائٹ والے الرٹ موڈ میں رہنا سیکھ لیتا ہے جس سے اس کی سماجی سمج بوجھ کی صلاحیتیں متاثر ہوجاتی ہیں. خود اعتمادی جب بہت کم یا ختم ہوجائے اور والدین کی کڑی تنقید اور پرفیکشن ازم سوچ میں پیوست ہوجائے تو اسے مٹانا بہت مشکل ہوتا ہے. اب ہم ایک ناتواں لاچار بچے نہیں ہیں، مضبوط جواں ہیں، چاردیواری میں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، idiot, dumb یا useless ہونے کے طعنے نہیں پڑتے لیکن دماغ ہمیشہ الرٹ اور خوفزدہ رہنے کا عادی ہوجاتا ہے اور اب دنیا کی تنقید سہنے کے لیے defene mechanisms تیار کر لیتا ہے. چونکہ self-confidence اور self-concept کو نقصان پہنچا ہے یقیناً اسکے مضر اثرات سے بچنا ممکن نہیں. Depression, social anxiety, perfectionism, anger, extremism, poor physical health, eating disorders, unsustainable relationships, substance abuse, suicidal thoughts, اور کئ ان گنت تکلیف دہ علامات. اب زندگی تو گزارنی ہے لیکن بہت ساری نہ نظر والی بیماریوں کے ساتھ. فیس بک پر اکثر لوگ مختلف گروپس میں اجنبی لوگوں سے کہتے ہیں وہ suicidal ہورہے ہیں یا depressed ہیں لیکن ایک ہی گھر میں والدین سے یہ سب کہنے کی ہمت نہیں ہوتی، ڈر لگتا ہے ہمیشہ کی طرح یہ نہ کہہ دیں "تم بہانے بنا رہےہو!!!”
بحیثیت ماں میں بخوبی واقف ہوں بچوں کی نگہداشت ہر گز آسان نہیں، یہ ایک جسمانی، معاشی، نفسیاتی اور جذبات کی جدوجہد ہے. مگر بچے پیدا کرنے کا یہی مقصد ہوتا ہے آپ اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں. شاید آپکو جان کر حیرت ہو ایموشنل ابیوز محض معاشی طور پر کمزور گھروں کا مسئلہ نہیں ہے، اسکا تناسب پڑھے لکھے معاشی طور پر مستحکم طبقے میں حیران کن حد تک زیادہ ہے. بچہ ایک blank slate کی مانند ہوتا ہے جس پر سب سے پہلے لکھنے کا اختیار ہم والدین کے پاس ہوتا ہے، ہمارے الفاظ ہمارے بچوں کے دل کی آواز بن جاتے ہیں. "تم سے آج تک ڈھنگ کا کام نہیں ہوا اور نہ ہوگا” جیسے جملے ایک عرصہ سننے کے بعد لاشعوری طور پر شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں. پھر چاہے دنیا آپکی کامیابی کے قصیدے پڑھے مگر inner critic ہمیشہ اس جملے کو دہراتا رہتا ہے.
اتنے طویل لیکچر کے بعد سوال یہ بنتا ہے کہ ایموشنلی ہیلدی(emotionally healthy) بچے اور والدین کون ہوتے ہیں؟ کیا وہ ساری زندگی خوشیوں کے سمندر میں ڈبکیاں لگاتے رہتے ہیں؟ یا غم، غصہ، افسردگی، جلیسی انہیں چھو کر نہیں گزرتی؟ پرفیکٹ فیملیز محض فیس بک کی تصویروں میں ہوا کرتی ہیں، حقیقت میں نہیں. دراصل ایموشنلی انٹیلیجنٹ بچے وہ ہوتے ہیں جن کے ماں باپ "پرفیکٹ نہیں ہوتے”. یہ ماں باپ اپنے بچوں کے negative یا uncomfortable جذبات کو دباتے نہیں. کیونکہ زندگی خوشی/غم، محبت/نفرت، غصہ/اطمینان اور کئی مختلف احساسات کا ملاپ ہے. انہیں بھی غم، غصہ، افسردگی، ندامت، شرمندگی، جیلسی جیسے نارمل احساسات کا سامنا رہتا ہے لیکن وہ ان جذبات کو extreme ends پر نہیں لے کر جاتے اس کے بر عکس ایموشنلی ابیوزڈ افراد اپنے جذبات کو regulate کرنے میں ناکام رہتے ہیں. یہ والدین اپنے بچوں کی کمزوریوں کو دبانے کی بجائے انہیں اپنانا سکھاتے ہیں جنہیں "Dr Winnicott "Good Enough Parents کا نام دیتے ہیں. ایموشنلی ہیلدی والدین بچوں کی نہیں بلکہ خود اپنی تربیت کرتے ہیں. سائیکاتھیریپسٹ فلپا پیری کہتی ہیں آپکی اولاد آپکو اپنے بچپن میں جھانکنے کا موقع دیتی ہے، اگر ماضی اچھا نہ ہوتو نظر ثانی کرتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے. جب آپکو اپنے بچوں کی کسی خاص حرکت سے irritation ہو تو بہت ممکن ہے اس عمر میں آپ نے بھی وہی رویہ رکھا ہو جس پر شدید ڈانٹ یا تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہو، تبھی لاشعوری طور پر وہ مخصوص عمل ہمیں irritate کرتا ہے. جن گھروں میں نفسیاتی ابیوز ہوتا ہے وہاں تنقید اور نظرانداز کرنا کبھی کبھار نہیں بلکہ بہت زیادہ ہوتا ہے، البتہ اپنے بچوں پر healthy criticism کرنا غلط نہیں.
ایک اچھی parenting کی کوئی اسکرپٹ تو موجود نہیں ہے، یہ ایک لرننگ پراسس ہے، شرط یہ ہے کہ آپ بہتر بننے کی لگن رکھتے ہوں. ارسطو کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے "خود کو جاننا” بہت ضروری ہے. اپنے attachment style(anxious, avoidant, secure) کے متعلق آگاہی ہونا لازمی سمجھیے. غیر جانبدار ہوکر اپنے والدین اور انکے رویوں کا جائزہ لیں. ضروری ہو توکسی psychotherapist سے مدد لیں(ہمارے یہاں اچھے اور اپنے کام میں ماہر سائیکاتھیرپسٹ بے حد نایاب ہیں). Self-help books پڑھیں لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری "اپنے آپ کو پڑھیں”، اس poor parenting کی vicious cycle کو توڑیں، ورنہ سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں ہماری فیس بک نیوز فیڈ اور انسٹاگرام ہمیں اپنے بارے میں کمتر محسوس کروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اورحقیقی دنیا کے پیچیدہ مسائل ہمیں گھیرے رکھتے ہیں، ایسے میں اپنی اولاد کی خود اعتمادی اور ذہنی صحت کو نقصان پہنچانے کے بعد زندگی جیسے کٹھن سفر کو طے کرنے کے لیے یوں ہی نہ چھوڑ دیں. والدین محض اپنے بچوں کی رپورٹ کارڈز ہی شیئر نہ کیا کریں بلکہ بچوں کو انکی weirdness اور vulnerabilities بھی شیئر کرنے دیا کریں.
(بہت سے لوگوں کو شاید میرا لکھا بہت ناگوار گزرے، یقیناً اختلاف آپکا حق ہے لیکن غلط پر تنقید کرنا ضروری ہے)
ندا اسحاق
Ex-emotional abusive mother!!!!