تحریر: ڈاکٹر اعجاز ایوب
صحت اور تعلیم ہمیشہ سے ہمارے حکمرانوں کے ایجنڈے پر سب سے کم اہمت کے حامل شعبے رہے ہیں. کل قومی پیداوار کا صرف 2 فی صد بجت ان دو اہم شعبوں کے لئے مختص کیا جاتا ہے.
مملکت خُداداد کے زیر انتظام علاقوں میں سے گلگت بلتستان واحد علاقہ ہے جہاں کوئی میڈیکل کالج اور ٹیچنگ ہسپتال کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے. لیکن ہرحکُومت بلند و بانگ دعوے کرتی رہی ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو ترجیحی بُنیادوں پر حل کرنا چاہتی ہے. ان دعوں کے باوجود صحت کا شعبہ زبُوں حالی کا شکار ہے اور گلگت بلتستان کے بیشتر ہسپتال بُھوت بنگلے کی تصویر پیش کرتے ہیں۔
لگ بھگ 15 لاکھ آبادی پر مُشتمل اس خطے میں بُمشکل پانچ سو ڈاکٹروں کی آسامیاں موجود ہیں. جن میں سے ایک سو اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی ہیں اور باقی ماندہ سیٹیں میڈیکل آفیسرز، ڈپٹی میڈیکل آفیسرز، اور انتظامی عہدوں کے لیے ہیں۔ یُوں آبادی کے تناسب سے ساڑھے تین ہزار افراد کے لئے ایک ڈاکٹر کی آسامی موجود ہے، جبکہ عالمی ادارہ برائے صحت کی ہدایات کے مُطابق کم از کم ایک ہزار آبادی کے لئے ایک ڈاکٹر کا ہونا لازمی ہے۔ یعنی صحت کی بہتر سہولیات کے لئے اس تناسب سے کم از کم پندرہ سو ڈاکٹروں کی ضرورت ہے. جبکہ اس وقت چار سو ڈاکٹر گلگت بلتستان کے ہسپتالوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ تمام ہسپتالوں میں بستروں کی مجموعی تعداد لگ بھگ بارہ سو ہے یعنی 15 لاکھ کی آبادی کے لیے صرف بارہ سو بستروں پر مُشتمل ہسپتال موجود ہیں.
ہسپتالوں کی یہ تصویر حکومت کے دعووں کا پول کھول دیتی ہے۔ دور دراز علاقوں کے بہت سارے صحت کے مراکز میں ڈاکٹر ہی تعینات نہیں ہیں اور بعض جگہوں میں ڈاکٹر کو تعینات کر دیا جائے تو وہاں اُن کے لئے رہنے سہنے کا مُناسب بندوبست ہی نہیں ہوتا ہے۔ اکثر اوقات کسی ہسپتال میں سرجن یا گائنی کالوجسٹ کو تعینات کر بھی دیا جائے تو وہاں بے ہوشی کا ڈاکٹر اور ہسپتال کا مُکمل عملہ ہی تعینات نہیں ہوتے. یا پھر آپریشن تھیٹر کا ساز و سامان سرے سے موجود نہیں ہوتا ہے۔
یہی حال زندگی کو بچانے والے ادویات اور سازو سامان کا ہے. تقریبا تمام ہسپتالوں میں ادویات اور ساز و سامان کی شدید قلت ہے. ایک میڈیکل آفیسر دن دو بجے سے اگلی صُبح آٹھ بجے تک ڈی ایچ کیو (ضلعی مرکز) ہسپتال کا واحد سہارا ہوتا ہے جو ایمرجنسی سمیت ہسپتال میں داخل مریضوں کا بھی مُعائنہ کرتا ہے۔ دریں اثنا اگر کسی مریض کی موت واقع ہو جائے تو لواحقین ہسپتال میں توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں اور ڈاکٹروں ودیگر ہیلتھ ورکرز پر حملہ آور ہو جاتے ہیں ۔ ایسے واقعات کی سد باب کے لئے حکومت کو چاہیے وہ ڈاکٹروں، ادویات اور طبی ساز و سامان کی کمی کو پورا کرنے کے لئے بروقت اقدامات اُٹھائے تا کہ ایسے نا خوشگوار واقعات کو روکا جا سکے اور قابل علاج بیماریوں کی وجہ سے اموات کی شرح کو کم سے کم کیا جا سکے۔
اس وقت سب سے اہم مسئلہ ڈاکٹروں اور مُستند نرسنگ اسٹاف کی کمی کا ہے۔ لہٰذا ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملہ کی سیٹوں میں اضافہ اور ان پر فوری طور پر قابل اسامیوں کی تعیناتی وقت کی ضرورت ہے ۔
اسلام آباد ، لاھور اور کراچی کے صرف ایک بڑے ہسپتال میں لگ بھگ ایک ہزار ڈاکٹرز ہوتے ہیں. جس میں ہاؤس جاب، پی جی ٹرینی،ایم اوز اور اسپیشلسٹ ڈاکٹرز شامل ہیں۔ جبکہ پُورے گلگت بلتستان میں بمُشکل چار سو ڈاکٹر ہیں اُن میں سے صرف ستر اسی اسپیشلسٹ ڈاکٹر ہونگے۔ ایسے حالات میں صحت کے شعبے کو بہترین انداز سے چلانا نا ممکن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پی ایچ کیو گلگت ، آر ایچ کیو گلگت اور آر ایچ کیو اسکردو کے علاوہ کوئی بھی بڑا ہسپتال صحیح معنوں میں فعال نہیں ہے۔ وزیر اعلی صاحب کی طرف سے جون ۲۰۲۱ تک تمام ڈی ایچ کیو ہسپتالوں کو فعال بنانے کے احکامات جاری ہو چُکے ہیں جو کہ خوش آئند بات ہوگی۔ تا ہم تمام ڈی ایچ کیو ہسپتالوں کو فعال بنانے کے لئے کم از کم ایک سو اسپیشلسٹ ڈاکٹرز ، دو سو ایم اوز ، پچاس ڈی اوز اور ایڈمن ڈاکٹروں کی ضرورت درکار ہوگی ورنہ پھر وہی حالات ہونگے جو ماضی میں ہوتے رہے تھے کہ گلگت سے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کو دور دراز علاقوں میں بھجوا دیا جائے گا اور گلگت کے بڑے ہسپتال ( جہاں پورے گلگت بلتستان سے کیس ریفر ہو کر آتے ہیں ) سُنسان ھو جائیں گے ۔یاد رہے اس وقت ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں ایم اوز اور ڈی اوز کی کوئی خالی آسامی موجود نہیں ہے اور بہت سارے ایم اوز کو اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی خالی آسامیوں کی تنخواہ دیکر کام لیا جا رہا ہے اور نئے بھرتی ہونے والے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کے لئے بھی اس وقت سیٹیں بہت کم ہیں ۔ لہازا حکومت ھنگامی بُنیادوں پر لگ بھگ دو سو ایم اوز، ایک سو اسپیشلسٹ ،پچاس ڈی اوز کی سیٹوں کی تخلیق کے لئے جلد از جلد کاروائی عمل میں لائیں۔ تا کہ میڈیکل کالج اور ٹیچنگ ہسپتال کے قیام تک صحت کے نظام کو بہتر انداز سے چلایا جا سکے۔
ڈاکٹر اعجاز ایوب ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن گلگت بلتستان کے صدر اور سماجی کارکن ہیں